وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ دَرَاهِمَ مَعْدُودَةٍ وَكَانُوا فِيهِ مِنَ الزَّاهِدِينَ
اور انھوں نے اسے تھوڑی قیمت، چند گنے ہوئے درہموں میں بیچ دیا اور وہ اس میں رغبت نہ رکھنے والوں سے تھے۔
قافلے والوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو ایک پونجی سمجھ کر چھپا لیا اور قافلے کے اور لوگوں پر اس راز کو ظاہر نہ کیا۔ بلکہ کہہ دیا کہ ہم نے کنوئیں کے پاس کے لوگوں سے اسے خریدا ہے۔ انھوں نے ہمیں اسے دے دیا ہے تاکہ قافلے والے دوسرے لوگ بھی اس میں اپنا حصہ نہ سمجھ بیٹھیں۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ ’’برادران یوسف نے اپنی شناخت چھپائی اور حضرت یوسف علیہ السلام نے بھی اپنے تئیں ظاہر نہ کیا کہ ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ کہیں مجھے قتل ہی نہ کر دیں۔ اس لیے چپ چاپ بھائیوں کے ہاتھوں آپ بک گئے سقے سے انھوں نے کہا۔ اس نے آواز دے کر بلا لیا۔ انھوں نے اونے پونے یوسف علیہ السلام کو ان کے ہاتھ بیچ ڈالا۔‘‘