وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ
اور ان لوگوں کو جو اللہ کے راستے میں قتل کیے جائیں، مت کہو کہ مردے ہیں، بلکہ زندہ ہیں اور لیکن تم نہیں سمجھتے۔
شہداء کو مردہ نہ کہناان کے اعزاز و تکریم کے لیے ہے۔ یہ عالم برزخ کی زندگی ہے جسے ہم سمجھنے سے قاصر ہیں۔ یہ زندگی حضرات انبیاء كرام اور مومنین کو حاصل ہے۔ پھر شہید کی زندگی قوم کی حیات بنتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی راہ میں جان دینے والے كو ہمیشہ ہمیشہ كی زندگی دی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شہداء کی روحیں سبز پرندوں کے جسم میں ہوتی ہیں۔ اور ان کے لیے عرش کے ساتھ کچھ قندیلیں لٹکی ہوئی ہیں یہ روحیں جنت میں جہاں چاہیں سیر کرتی پھرتی ہیں۔ پھر ان قندیلوں میں واپس آجاتی ہیں۔(مسلم: ۱۸۸۷) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شہید کو قتل ہونے سے اتنی ہی تکلیف ہوتی ہے جتنی تم کو مچھر یا چیونٹی کے کاٹنے سے۔ (۳) شہید کے تمام گناہ سوائے قرض کے معاف کردیے جائیں گے۔ شہید کو چھ طرح کی عنایات ملتی ہیں۔ (۱) خون نکلتے ہی مغفرت اور ٹھکانہ جنت میں۔ (۲) عذاب قبر سے نجات ۔ (۳) ایمان کا جوڑا پہنایا جاتا ہے۔ (۴) حوروں سے نکاح۔ (۵) دل کی گھبراہٹ نہیں۔ (۶) خاندان کے 70افراد کی شفاعت کرسکتا ہے۔ (ترمذی: ۱۶۶۳)