سورة ھود - آیت 116

فَلَوْلَا كَانَ مِنَ الْقُرُونِ مِن قَبْلِكُمْ أُولُو بَقِيَّةٍ يَنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِي الْأَرْضِ إِلَّا قَلِيلًا مِّمَّنْ أَنجَيْنَا مِنْهُمْ ۗ وَاتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا مَا أُتْرِفُوا فِيهِ وَكَانُوا مُجْرِمِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

پھر ان امتوں میں سے جو تم سے پہلے تھیں، کچھ بچی کھچی بھلائی والے لوگ کیوں نہ ہوئے، جو زمین میں فساد سے منع کرتے، سوائے تھوڑے سے لوگوں کے جنھیں ہم نے ان میں سے نجات دی اور وہ لوگ جنھوں نے ظلم کیا، وہ ان چیزوں کے پیچھے پڑگئے جن میں انھیں عیش و آرام دیا گیا تھا اور وہ مجرم تھے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

عذاب کے متعلق اللہ کا قانون: جب کبھی کوئی نبی مبعوث ہوتا ہے اور لوگوں کو ایمان لانے او ربھلے کاموں کی دعوت دیتا ہے تو معرکہ حق و باطل شروع ہو جاتا ہے جس نے نتیجے میں اللہ مجرموں کو ہلاک کر دیتا ہے اورا ہل ایمان کو بچا لیتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ سوال کرتا ہے کہ ان بچے ہوئے لوگوں میں سے ایسے نیک لوگ کیوں نہ ہوئے جو اہل شر اور اہل منکر کو منکرات سے روکتے؟ پھر فرمایا ایسے لوگ تھے تو سہی مگر بہت تھوڑے۔ پھر اگر یہ اہل خیر برائی کو روکنے کا فریضہ اپنی حسب توفیق سرانجام دیتے رہتے تو بھی نیک لوگوں کی موجودگی میں اللہ کی طرف سے عذاب نہیں آتا۔ لیکن جب اہل خیر نہی عن المنکر سے غفلت برتنے لگیں اور برائی عام ہو جائے اور خوشحال لوگ اپنی عیش کوشیوں میں ہی پڑے رہیں تو اسی صورت میں اللہ کا عذاب آتا ہے۔ جو اہل خیر کو بھی نہیں چھوڑتا اس طرح گیہوں کے ساتھ گُھن بھی پس جاتا ہے۔