قَالَ يَا قَوْمِ أَرَهْطِي أَعَزُّ عَلَيْكُم مِّنَ اللَّهِ وَاتَّخَذْتُمُوهُ وَرَاءَكُمْ ظِهْرِيًّا ۖ إِنَّ رَبِّي بِمَا تَعْمَلُونَ مُحِيطٌ
اس نے کہا اے میری قوم! کیا میری برادری تم پر اللہ سے زیادہ غالب ہے اور اسے تم نے اپنی پیٹھ پیچھے پھینکا ہوا بنا رکھا ہے، بے شک میرا رب جو کچھ تم کر رہے ہو، اس کا احاطہ کرنے والا ہے۔
حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا گویا تم مجھے میرے قبیلے کی وجہ سے نظر انداز کر رہے ہو لیکن جس اللہ نے مجھے منصب سے نوازا ہے ۔ اس کی کوئی عزت و عظمت اور اس کے منصب کا کوئی احترام تمھارے دلوں میں نہیں ہے۔ اور اسے تم نے پس پشت ڈال دیا ہے۔ یہاں ’’اَلْحُرُّ عَلَیْکُمْ مِّنِّیْ‘‘ مجھ سے زیادہ ذی عزت کی بجائے اللہ سے زیادہ ذی عزت کہا جس سے یہ بتلانا مقصود ہے کہ نبی کی توہین دراصل اللہ کی توہین ہے۔ اس لیے کہ نبی اللہ کا مبعوث ہوتا ہے۔ اور اسی اعتبار سے علمائے حق کی توہین اور ان کو حقیر سمجھنا یہ اللہ کے دین کو توہین ہے اس لیے کہ وہ اللہ کے دین کے نمائندے ہیں احاطہ کیے ہوئے ہے۔ یعنی اللہ تمھارے اعمال کو جانتا ہے۔ کائنات کی ہر ہر چیز اور تم خود بھی اس کے قبضہ قدرت میں ہو۔ لہٰذا وہ تمھیں تمھارے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے گا۔