قَالَ يَا قَوْمِ أَرَأَيْتُمْ إِن كُنتُ عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّي وَرَزَقَنِي مِنْهُ رِزْقًا حَسَنًا ۚ وَمَا أُرِيدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ إِلَىٰ مَا أَنْهَاكُمْ عَنْهُ ۚ إِنْ أُرِيدُ إِلَّا الْإِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ ۚ وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّهِ ۚ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ
اس نے کہا اے میری قوم! کیا تم نے دیکھا اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک واضح دلیل پر ہوں اور اس نے مجھے اپنے ہاں سے اچھا رزق عطا کیا ہو۔ اور میں نہیں چاہتا کہ تمھاری بجائے میں (خود) اس کا ارتکاب کروں جس سے تمھیں منع کرتا ہوں، میں تو اصلاح کے سوا کچھ نہیں چاہتا، جتنی کرسکوں اور میری توفیق اللہ کے سوا کسی سے نہیں، میں نے اسی پر بھروسا کیا اور میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔
شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا دیکھو میں اپنے رب کی طرف سے کسی دلیل و حجت اور بصیرت پر قائم ہوں اور اُسی کی طرف تمھیں بلا رہا ہوں۔ اُس نے اپنی مہربانی سے بہترین روزی دے رکھی ہے۔ نبوت و رزق حلال اور جن کاموں سے میں تمھیں روکتا ہوں بھلا میں ایسے کام کر سکتا ہوں۔ میں تو تمھاری بھی اصلاح چاہتا ہوں اور میں اپنے اس عزم پر قائم رہنے کی اللہ سے توفیق چاہتا ہوں۔ اور ہر پریشانی کے وقت اسی پر بھروسہ کرتا ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ مسند احمد میں روایت ہے: حکیم بن معاویہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ اس کے بھائی مالک نے کہا کہ اے معاویہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے پڑوسیوں کو گرفتار کر رکھا ہے۔ تم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ تمھاری آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات بھی ہو چکی ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمھیں پہچانتے بھی ہیں پس میں اس کے ساتھ چلا اس نے کہا آپ علیہ السلام میرے پڑوسیوں کو رہا کر دیں وہ مسلمان ہو چکے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منہ پھیر لیا۔ وہ غضب ناک ہو کر اُٹھ کھڑا ہوا او رکہنے لگا واللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اگر ایسا جواب دیں گے تو لوگ کہیں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں تو پڑوسیوں کے بارے میں حکم دیتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود اس کے خلاف کرتے ہیں اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کیا لوگوں نے ایسی بات زبان سے نکالی ہے؟ اگر میں ایسا کروں تو اس کا وبال مجھ پر ہی ہے۔ ان پر تو کوئی نہیں جاو اس کے پڑوسیوں کو چھوڑ دو۔‘‘ (مسند احمد: ۴/ ۴۴۷، ح: ۲۰۰۱۴)