وَيَا قَوْمِ أَوْفُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ ۖ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ
اور اے میری قوم! ماپ اور تول انصاف کے ساتھ پورا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو اور زمین میں فساد کرتے ہوئے دنگا نہ مچاؤ۔
انبیاء علیہم السلام کی دعوت دو بنیادوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ (۱) حقوق اللہ کی ادائیگی (۲)حقوق العباد کی ادائیگی: ایک اللہ کی عبادت اور بندوں سے معاملات کا درس دینے کے بعد اب تاکید کے طور پر انھیں انصاف کے ساتھ پورا پورا ناپ اور تول کا حکم دیا جا رہا ہے۔ کیونکہ اللہ کے ہاں یہ بھی بہت بڑا جرم ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے پوری ایک سورت اس ضمن میں نازل فرما کر اس کی اخروی سزا بیان فرمائی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَيْلٌ لِّلْمُطَفِّفِيْنَ۔ الَّذِيْنَ اِذَا اكْتَالُوْا عَلَى النَّاسِ يَسْتَوْفُوْنَ۔ وَ اِذَا كَالُوْهُمْ اَوْ وَّ زَنُوْهُمْ يُخْسِرُوْنَ﴾ (المطففین: ۱۔ ۳) ’’مطففین (یعنی ناپ تول میں کمی کرنے والوں) کے لیے ہلاکت ہے یہ وہ لوگ ہیں کہ جب لوگوں سے ناپ کر لیتے ہیں تو پورا لیتے ہیں اور جب دوسروں کو ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو کم کر دیتے ہیں۔‘‘ یہ لوگ صرف ناپ تول میں ہی کمی نہ کرتے بلکہ ہر وہ بدیانتی کرنا چاہتے تھے جس کی وجہ سے دوسروں کا حق مارا جائے۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے انھیں شرک کے بعدایسی بد دیانتیاں چھوڑنے کی نصیحت کی اور ان کی یہی کرتوتیں فساد فی الارض کے مترادف تھیں۔