وَجَاءَهُ قَوْمُهُ يُهْرَعُونَ إِلَيْهِ وَمِن قَبْلُ كَانُوا يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ ۚ قَالَ يَا قَوْمِ هَٰؤُلَاءِ بَنَاتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ ۖ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَلَا تُخْزُونِ فِي ضَيْفِي ۖ أَلَيْسَ مِنكُمْ رَجُلٌ رَّشِيدٌ
اور اس کی قوم (کے لوگ) اس کی طرف بے اختیار دوڑتے ہوئے اس کے پاس آئے اور وہ پہلے سے برے کام کیا کرتے تھے۔ اس نے کہا اے میری قوم! یہ میری بیٹیاں ہیں، یہ تمھارے لیے زیادہ پاکیزہ ہیں، تو اللہ سے ڈرو اور میرے مہمانوں میں مجھے رسوا نہ کرو، کیا تم میں کوئی بھلا آدمی نہیں؟
ان مہمانوں کی آمد کی اطلاع پاتے ہی کچھ مشٹنڈے گھر کی دیواریں پھاند کر اندر پہنچ گئے اور سیدنا لوط علیہ السلام سے مطالبہ کیا کہ ان کو ہمارے حوالے کردو۔ تاکہ ان سے اپنی غلط خواہشات پوری کریں لوط علیہ السلام نے مہمانوں کا دفاع کرنے کی خاطر کہا کہ یہ میری بیٹیاں ہیں ان سے تم نکاح کر لو اور اپنا مقصد پورا کر لو یہ تمھارے لیے ہر طرح سے بہتر ہے۔ اور مہمانوں کے سامنے مجھے رسوا نہ کرو۔ بیٹیوں سے مراد: قوم کی سب بیٹیاں ہیں کیونکہ نبی پوری قوم کا روحانی باپ ہوتا ہے۔ اور قوم کی بیٹیاں اس کی روحانی بیٹیاں ہوتی ہیں۔ حضرت لوط علیہ السلام نے ان سے کہا کیا تم میں ایک آدمی بھی ایسا سمجھ دار نہیں ہے جو میزبانی کے تقاضوں اور اس کی نزاکت کو سمجھ سکے اور تمھیں اپنے بُرے ارادوں سے روک سکے؟