قَالُوا يَا صَالِحُ قَدْ كُنتَ فِينَا مَرْجُوًّا قَبْلَ هَٰذَا ۖ أَتَنْهَانَا أَن نَّعْبُدَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا وَإِنَّنَا لَفِي شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُونَا إِلَيْهِ مُرِيبٍ
انھوں نے کہا اے صالح! یقیناً تو ہم میں وہ تھا جس پر اس سے پہلے امیدیں رکھی گئی تھیں، کیا تو ہمیں منع کرتا ہے کہ ہم ان کی عبادت کریں جن کی عبادت ہمارے باپ دادا کرتے رہے ہیں اور بے شک ہم اس بات کے بارے میں جس کی طرف تو ہمیں دعوت دیتا ہے، یقیناً ایک بے چین رکھنے والے شک میں ہیں۔
پیغمبر چونکہ اپنی قوم میں اخلاق و کردار، دیانت و امانت میں ممتاز ہوتا ہے۔ اس لیے قوم کو اس سے اچھی اُمیدیں وابستہ ہوتی ہیں۔ اسی لحاظ سے صالح علیہ السلام کی قوم نے بھی ان سے کہا کہ ہم نے تمھیں عقلمند ہونہار اور دیانت دار سمجھ کر اپنی بہت سی توقعات تم سے وابستہ کر رکھی تھیں کہ تم اپنے باپ دادا کا نام روشن کرو گے، تم نے تو الٹا باپ دادا کے دین سے سرکشی اختیار کر لی۔ اور ہمیں بھی باپ دادا کے طریقے سے ہٹانے لگے ہمیں تو تمھاری اس نئی راہبری میں بڑا شک شبہ ہے۔