وَقَالَ ارْكَبُوا فِيهَا بِسْمِ اللَّهِ مَجْرَاهَا وَمُرْسَاهَا ۚ إِنَّ رَبِّي لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور اس نے کہا اس میں سوار ہوجاؤ، اللہ کے نام کے ساتھ اس کا چلنا اور اس کا ٹھہرنا ہے۔ بے شک میرا رب یقیناً بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
کشتی پر سوار ہونے کی دعا: نوح علیہ السلام نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا: اللہ ہی کے نام سے اس کا پانی پر چلنا اور اسی کے نام پر اس کا ٹھہرنا ہے۔ اس سے ایک مقصد اہل ایمان کو حوصلہ اور تسلی دینا بھی تھا کہ بلا خوف و خطر کشتی میں سوار ہو جاؤ۔ اللہ تعالیٰ ہی اس کشتی کا محافظ و نگران ہے۔ اسی کے حکم سے چلے گی اور اسی کے حکم سے ٹھہرے گی۔ رب تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ﴿فَاِذَا اسْتَوَيْتَ اَنْتَ وَ مَنْ مَّعَكَ عَلَى الْفُلْكِ فَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ نَجّٰىنَا مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ۔ وَ قُلْ رَّبِّ اَنْزِلْنِيْ مُنْزَلًا مُّبٰرَكًا وَّ اَنْتَ خَيْرُ الْمُنْزِلِيْنَ﴾ (المومنون: ۲۸۔ ۲۹) ’’اے نوح علیہ السلام ! جب تو اور تیرے ساتھی کشتی میں آرام سے بیٹھ جائیں تو کہو: ’’سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جس نے ہمیں ظالم لوگوں سے نجات دلائی اور کہہ کہ اے میرے رب مجھے بابرکت اُتارنا اور تو ہی بہتر اتارنے والا ہے۔‘‘ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مومن کو صرف اسباب پر بھروسہ نہ کرنا چاہیے بلکہ اللہ کے فضل و کرم کی دعا بھی کرتے رہنا چاہیے کیونکہ اسباب کی باگ ڈور بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’میری اُمت کے لیے ڈوبنے سے بچاؤ۔ اس قول میں ہے کہ سوار ہوتے وقت کہہ لیں۔ (معجم الکبیر طبرانی: ۱۰/ ۲۷۱، ح: ۱۲۴۹۳) ﴿وَ مَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖ وَ الْاَرْضُ جَمِيْعًا قَبْضَتُهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ وَ السَّمٰوٰتُ مَطْوِيّٰتٌۢ بِيَمِيْنِهٖ سُبْحٰنَهٗ وَ تَعٰلٰى عَمَّا يُشْرِكُوْنَ﴾ (الزمر: ۶۷) ’’اور ان لوگوں نے جیسی قدر اللہ کی کرنی چاہیے تھی نہیں کی۔ ساری زمین قیامت کے دن اس کی مٹھی میں ہوگی اور تمام آسمان اس کے داہنے ہاتھ میں لپٹے ہوں گے۔ وہ پاک اور برتر ہے ہر اس چیز سے جسے لوگ اس کا شریک بنائیں۔‘‘ دوسرا یہ کہ کشتی یا جہاز پر سوار ہوتے وقت یہ دعا پڑھنی چاہیے بِسْمِ اللّٰهِ مَجْرٖىهَا وَ مُرْسٰىهَا اِنَّ رَبِّيْ لَغَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ اس دعا کے آخر میں غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ اللہ کا وصف بیان ہوا ہے کہ کافروں کی سزا کے مقابلے میں مومنوں پر رحمت و شفقت کا اظہا رہو۔