قَدْ نَرَىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ ۖ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا ۚ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ ۗ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ
یقیناً ہم تیرے چہرے کا بار بار آسمان کی طرف پھرنا دیکھ رہے ہیں، تو ہم تجھے اس قبلے کی طرف ضرور پھیر دیں گے جسے تو پسند کرتا ہے، سو اپنا چہرہ مسجد حرام کی طرف پھیر لے اور تم جہاں بھی ہو سو اپنے چہرے اس کی طرف پھیر لو اور بے شک وہ لوگ جنھیں کتاب دی گئی ہے یقیناً جانتے ہیں کہ بے شک ان کے رب کی طرف سے یہی حق ہے اور اللہ اس سے ہرگز غافل نہیں جو وہ کر رہے ہیں۔
یہودیوں کی کتابوں میں مذکور تھا کہ ایک نبی آخرالزماں عرب میں پیدا ہونگے۔ ابراہیم علیہ السلام کے طریقہ پر ہوں گے اور قبلہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش تھی کہ اسلام اپنی اصل شکل میں واپس آجائے اور آپ قبلہ اول کی طرف منہ کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے آپ بار بار آسمان کی طرف دیکھتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے ان کا رخ اسی طرح پھیر دیا ۔ ہجرت کے دوسرے سال ہی اللہ نے تبدیلی قبلہ کا حکم دے دیا۔ لہٰذا ان کا یہ جھگڑا کسی دلیل کی بنیاد پر نہیں محض حسد و عناد کی بنا پر تھا۔ یعنی اگر آپ ان کی کتابوں سے یہ بات انھیں دکھا بھی دیں تب بھی یہ ماننے والے نہیں ۔حضرت ابراہیم یہودیوں اور عیسائیوں کی راہنمائی کے بانی تھے ۔قبلہ اول تو پہلے ہی سے تھا اب اس کو اُمت کا مرکز بنادیا گیا۔