وَأُوحِيَ إِلَىٰ نُوحٍ أَنَّهُ لَن يُؤْمِنَ مِن قَوْمِكَ إِلَّا مَن قَدْ آمَنَ فَلَا تَبْتَئِسْ بِمَا كَانُوا يَفْعَلُونَ
اور نوح کی طرف وحی کی گئی کہ بے شک حقیقت یہ ہے کہ تیری قوم میں سے کوئی ہرگز ایمان نہیں لائے گا مگر جو ایمان لاچکا، پس تو اس پر غمگین نہ ہو جو وہ کرتے رہے ہیں۔
عذاب صرف گندے عنصر پر آتا ہے: اس آیت سے معلوم ہوتا ہے پیغمبر کی دعوت اور قوم کے انکار کے نتیجہ میں عذاب اس وقت تک نہیں آتا جب تک اللہ تعالیٰ ایمان لانے کو نکال نہیں لیتا۔ اور باقی صرف گندہ عنصر ہی رہ جاتا ہے۔ تو یہی عین عذاب کا وقت ہوتا ہے۔ اور یہ اس وقت جب قوم نوح علیہ السلام نے عذاب کا مطالبہ کیا اور حضرت نوح علیہ السلام نے بارگاہ میں عاجز آگیا ہوں تو میری مدد کر۔ اسی وقت وحی آئی کہ جو ایمان لاچکے ان کے سوا اب کوئی ایمان نہ لائے گا تو ان پر افسوس نہ کر نہ ان کا کوئی ایسا خیال کر۔