مَثَلُ الْفَرِيقَيْنِ كَالْأَعْمَىٰ وَالْأَصَمِّ وَالْبَصِيرِ وَالسَّمِيعِ ۚ هَلْ يَسْتَوِيَانِ مَثَلًا ۚ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ
دونوں گروہوں کی مثال اندھے اور بہرے اور دیکھنے والے اور سننے والے کی طرح ہے، کیا یہ دونوں مثال میں برابر ہیں، تو کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے۔
بینا اور نابینا، کافرومومن کا تقابل: پچھلی آیات میں مومنین اور کافرین اور سعادت مندوں اور بدبختوں کا تذکرہ فرمایا اس آیت میں مثال بیان فرما کر دونوں کی حقیقت کو مزید واضح کیا جا رہا ہے۔ ایک مثال اندھے اور بہرے کی۔ دوسری مثال دیکھنے اور سننے والے کی ہے۔ کافر مومن ۱۔کافر دنیا میں حق کو دیکھنے سے اندھے تھے اور آخرت کے دن بھی۔ ۱۔مومن، سمجھ دار، حق کو دیکھنے والا بھلائی اور حق و باطل کے درمیان تمیز کرنے والا ہوتا ہے۔ ۲۔وہ حقانیت کی دلیلوں کو سننے سے بہرے تھے۔ ۲۔وہ حق اور خیر کی پیروی کرتا ہے۔ ۳۔نفع دینے والی بات سنتے ہی نہ تھے۔ ۳۔دلائل کو سنتا اور اس کے ذریعے سے شکوک کا ازالہ کرتا ہے۔ ۴۔اگر ان میں کوئی بھلائی ہوتی تو اللہ تعالیٰ انھیں ضرور سناتاہے۔ ۴۔ باطل سے اجتناب کرتا ہے۔ بھلائی لیتا ہے برائی چھوڑ دیتا ہے۔ باطل سے بچتا ہے حق کو مانتا ہے۔ بتلائیے یہ دونوں کیسے برابر ہو سکتے ہیں۔ تعجب ہے کہ پھر بھی تم ایسے دو مختلف شخصوں میں فرق نہیں سمجھتے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿لَا يَسْتَوِيْ اَصْحٰبُ النَّارِ وَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفَآىِٕزُوْنَ﴾ (الحشر: ۲۰) دوزخی اور جنتی ایک نہیں ہوتے جنتی تو بالکل کامیاب ہیں۔ اور فرمایا: ﴿وَ مَا يَسْتَوِي الْاَعْمٰى وَ الْبَصِيْرُ۔ وَ لَا الظُّلُمٰتُ وَ لَا النُّوْرُ۔ وَ لَا الظِّلُّ وَ لَا الْحَرُوْرُ۔ وَ مَا يَسْتَوِي الْاَحْيَآءُ وَ لَا الْاَمْوَاتُ اِنَّ اللّٰهَ يُسْمِعُ مَنْ يَّشَآءُ وَ مَا اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِي الْقُبُوْرِ۔ اِنْ اَنْتَ اِلَّا نَذِيْرٌ۔ اِنَّا اَرْسَلْنٰكَ بِالْحَقِّ بَشِيْرًا وَّ نَذِيْرًا وَ اِنْ مِّنْ اُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيْرٌ﴾ (فاطر: ۱۹۔ ۲۴) ’’اندھا اور دیکھنے والا برابر نہیں اندھیرے اور روشنی سایہ اور دھوپ برابر نہیں، زندہ اور مردہ برابر نہیں۔ اللہ جسے چاہے سنا سکتا ہے۔ تو قبر والوں کو سنا نہیں سکتا۔‘‘ تو تو صرف آگاہ کر دینے والا ہے۔ ہم نے تجھے حق کے ساتھ خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ ہر ہر اُمت میں ڈرانے والا ہو چکا ہے۔