سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلَّاهُمْ عَن قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْهَا ۚ قُل لِّلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۚ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ
عنقریب لوگوں میں سے بے وقوف کہیں گے کس چیز نے انھیں ان کے اس قبلہ سے پھیر دیا جس پر وہ تھے؟ کہہ دے اللہ ہی کے لیے مشرق و مغرب ہے، وہ جسے چاہتا ہے سیدھے راستے کی ہدایت دیتا ہے۔
جب نبی مکے سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے گئے تو 16یا 17ماہ بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز ادا کرتے رہے تھے۔ آپ دعا بھی کرتے تھے اور بار بار آسمان کی طرف بھی دیکھتے تھے كہ كب كعبہ كو قبلہ بنانے كا حكم آتا ہے۔ بالآخر اللہ تعالیٰ نے تحویل قبلہ کا حکم دے دیاجس پر یہودی ،عیسائی،مشرک،نادان تو ہم پرست،خواہش پرست لوگوں نے غرض پوری سوسائٹی نے شور مچادیا اور کہا کہ اگر بیت المقدس نبیوں کا قبلہ تھا تو اس کی مخالفت کیوں کی گئی۔ اگر بیت اللہ ہی اصل قبلہ ہے تو اس سے پہلے مسلمانوں نے جو نمازیں پڑھی ہیں وہ ضائع ہوگئیں۔ حالانکہ نماز ایک عبادت ہے اور عابد کو جس طرح کا حکم ہوتا ہے وہ اس کا پابند ہوتا ہے۔ بظاہر قبلہ کی طرف منہ ہے لیکن حقیقت میں تو رخ اللہ کی طر ف کرنا تھا۔ اس کے علاوہ جس اللہ کی عبادت کرنی ہے مشرق اور مغرب سارا اُسی کا ہے اس لیے جدھر بھی رخ ہوگا اللہ تعالیٰ ادھر ہی موجود ہوگا۔ تحویل قبلہ کا یہ حکم نماز عصر کے وقت آیا اور عصر کی نماز خانہ کعبہ کی طرف رخ کرکے پڑھی گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ہماری طرح نماز پڑھی ہمارے قبلے کی طرف منہ کیا اور ہمارے ذبیحہ کو کھایا تو وہ مسلمان ہے۔ (بخاری: ۳۹۱) ایك اور حدیث میں ارشاد ہے: ’’جب کوئی نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو اپنے رب سے سرگوشی کرتا ہے اس لیے قبلے کی طرف منہ کرکے تھوکانہ کرو۔ بائیں پاؤں کے نیچے تھوک لیا کرو۔ ‘‘ (بخاری: ۴۱۱) اللہ تعالیٰ نے ساری مخالفتوں کا ایک ہی جواب دیا کہ مشرق و مغرب اللہ ہی کا ہے۔ اس حکم سے اللہ تعالیٰ نے مومنین کو بھی آزمانا تھا کہ وہ بدل تو نہیں گئے کیونکہ ہجرت کے وقت گھر بار۔ مال و متاع چھوڑ کر آئے تھے دوسری حکمت یہ تھی کہ اُمت کو یکجا کردیا جائے اور بیت اللہ کو راہنمائی کا مرکز بنادیا جائے۔