سورة ھود - آیت 17

أَفَمَن كَانَ عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّهِ وَيَتْلُوهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ وَمِن قَبْلِهِ كِتَابُ مُوسَىٰ إِمَامًا وَرَحْمَةً ۚ أُولَٰئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ ۚ وَمَن يَكْفُرْ بِهِ مِنَ الْأَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهُ ۚ فَلَا تَكُ فِي مِرْيَةٍ مِّنْهُ ۚ إِنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

تو کیا وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے ایک واضح دلیل پر ہو اور اس کی طرف سے ایک گواہ اس کی تائید کر رہا ہو اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب بھی جو امام اور رحمت تھی، یہ لوگ اس پر ایمان لاتے ہیں۔ اور گروہوں میں سے جو اس کا انکار کرے تو آگ ہی اس کے وعدے کی جگہ ہے۔ سو تو اس کے بارے میں کسی شک میں نہ رہ، یقیناً یہی تیرے رب کی طرف سے حق ہے اور لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

مومن کون ہیں: جو فطرت پر قائم ہیں جو اللہ کی وحدانیت کو دل سے مانتے ہیں۔ اللہ کی فطرت، جس پر اس نے انسانی فطرت پیدا کی۔ بخاری و مسلم میں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں جیسے جانوروں کے بچے صحیح سالم پیدا ہوتے ہیں پھر لوگ ان کے کان کاٹ ڈالتے ہیں۔‘‘ (بخاری: ۱۳۸۵، مسلم: ۲۶۵۸) پس مومن ایک تو اللہ کی فطرت پر ہی رہتا ہے۔ یعنی جس کو خوداپنے وجود میں، زمین و آسمان کی ساخت اور کائنات کے نظم و نسق میں کھلی شہادت مل رہی تھی کہ اس کا دنیا کا مالک، حکم، پروردگار اور فرماں روا صرف ایک خدا ہے۔ پھر اس کے پاس اللہ کا شاہد یعنی اللہ کی شریعت تورات پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے پہنچتی ہے اور جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے ساتھ ختم ہوتی ہے۔ یعنی قرآن، جس نے آکر اُس فطری و عقلی شہادت کی تائید کی ان دو قومی شہادتوں یعنی تورات اور قرآن کریم، تورات جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مدتوں پہلے نازل ہوئی تھی اور قرآن نے اس کی تائید کی، پھر آخر کون ان سے آنکھیں بند کرسکتا ہے۔ اور کون سی چیز ایمان لانے میں آڑے آسکتی ہے۔ ان شہادتوں کی بنا پر تو انسان کو فوراً ایمان لے آنا چاہیے۔ اور جو پھر بھی ایمان نہیں لاتا تو اس کا علاج دوزخ کے سوا کیا ہو سکتا ہے؟ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس قرآن کے اللہ کی طرف سے سراسر حق ہونے میں کوئی شک و شبہ نہ کرنا چاہیے۔ جیسا کہ ارشاد ہے: ﴿ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ فِيْهِ﴾ (البقرۃ: ۲) اس کتاب میں کوئی شک نہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَ مَا اَكْثَرُ النَّاسِ وَ لَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِيْنَ﴾ (یوسف: ۱۰۳) گو آپ چاہیں لیکن اکثر لوگ تو وہ تجھے اللہ کی راہ سے بھٹکا دیں گے اور یہ بھی فرمایا: ﴿وَ لَقَدْ صَدَّقَ عَلَيْهِمْ اِبْلِيْسُ ظَنَّهٗ فَاتَّبَعُوْهُ اِلَّا فَرِيْقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ﴾ان پر ابلیس نے اپنا گمان سچ کر دکھایا، اور سوائے مومنوں کی ایک مختصر جماعت کے باقی سب اسی کے پیچھے لگ گئے۔