قُلْ أَتُحَاجُّونَنَا فِي اللَّهِ وَهُوَ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ وَلَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُخْلِصُونَ
کہہ دے کیا تم ہم سے اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہو، حالانکہ وہی ہمارا رب اور تمھارا رب ہے اور ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں اور تمھارے لیے تمھارے اعمال اور ہم اسی کے لیے خالص کرنے والے ہیں۔
یہود و نصاریٰ سمجھتے تھے کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں، لہٰذا تمام انعام و اکرام کے مستحق ہم ہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ ان سے کہیں كہ وہ ہمارا بھی رب ہے اور تمہارا بھی اور وہ جس طرح کے کوئی شخص عمل کرے گا اسی کے مطابق اس پر نوازشات کرے گا۔ اس لحاظ سے تو ہم تم سے بہتر ہیں کہ ہم فقط اسی کی بندگی کرتے ہیں اور بندگی سے مراد پوری زندگی اللہ کے حوالے کردینا ہے اللہ ہی کے لیے سوچنا ہے اللہ ہی سے مدد مانگنی ہے۔ یہود و نصاری تو شرک بھی کرتے ہیں اب یہ اندازہ وہ خود ہی لگائیں کہ آئندہ نوازشات اور اکرام کس پر رہنی چاہییں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں ایک دن (سواری پر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے لڑکے میں تجھے چند باتیں بتلاتا ہوں’’تو اللہ کی حفاظت کر اللہ تیری حفاظت فرمائے گا، تو اللہ کے حقوق کا خیال رکھ تو اسکو اپنے سامنے پائے گا، جب تو سوال کرے صرف اللہ تعالیٰ سے کر، جب تو مدد چاہے تو صرف اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کر۔ اور یہ بات جان لے کہ اگر ساری اُمت بھی جمع ہوکر تجھے کچھ نفع پہنچانا چاہے تو وہ تجھے اس سے زیادہ کچھ نہیں پہنچا سکتی جو اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے لکھ دیا ہے اور اگر وہ تجھے نقصان پہنچانے کے لیے جمع ہوجائیں تو اس سے زیادہ کچھ نقصان نہیں پہنچاسکتے جو اللہ تعالیٰ نے تیرے لیے لکھ دیا ہے ۔ قلم اٹھالیے گئے اور صحیفے خشک ہوگئے۔‘‘ (ترمذی: ۲۵۱۶)