سورة یونس - آیت 95

وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِ اللَّهِ فَتَكُونَ مِنَ الْخَاسِرِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اور نہ کبھی ان لوگوں سے ہونا جنھوں نے اللہ کی آیات کو جھٹلا دیا، ورنہ تو خسارہ اٹھانے والوں سے ہوجائے گا۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

آیت ۹۵ میں بھی مخاطب اُمت کو سمجھایا جارہا ہے کہ شک و شبہ میں بھی نہیں پڑنا اور نہ اللہ کی آیات کی تکذیب کرنا ورنہ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گے۔ شک اور تکذیب کے کئی مراحل ہیں، سب سے پہلے شک پیدا ہوتا ہے۔ پھر دلیل دی جاتی ہے۔ پھر جھگڑا شروع ہو جاتا ہے پھر تکذیب کا درجہ آجاتا ہے۔ یعنی ایسا انسان یکسر اللہ کی آیات کا انکار کردیتا ہے۔ پھر جب وہ اس تکذیب میں پختہ ہو جاتا ہے تو حق بات قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا اس سے قبول حق کی استعداد ہی چھن جاتی ہے۔ اور یہی وہ کیفیت ہوتی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کئی مقامات پر مہر لگ جانے سے تعبیر کیا ہے۔