قُولُوا آمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنزِلَ إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَىٰ وَعِيسَىٰ وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّونَ مِن رَّبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ
کہہ دو ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس پر جو ہماری طرف اتارا گیا اور جو ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور اس کی اولاد کی طرف اتارا گیا اور جو موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا گیا اور جو تمام نبیوں کو ان کے رب کی طرف سے دیا گیا، ہم ان میں سے کسی ایک کے درمیان فرق نہیں کرتے اور ہم اسی کے فرماں بردار ہیں۔
تفریق کرنے کا مطلب اس لحاظ سے کہ فلاں نبی حق پر تھا اور فلاں حق پر نہ تھا۔ یا ہم فلاں کومانتے ہیں، یا فلاں کو نہیں مانتے۔ کیونکہ سب انبیاء ایک ہی صداقت اور ایک ہی راہ راست کی طرف بلانے آئے ہیں۔ چنانچہ جو شخص صحیح معنی میں حق پرست ہے اس کے لیے تمام پیغمبروں کو برحق تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں جو کسی پیغمبر کو مانتے ہیں اورکسی کونہیں دراصل وہ اس پیغمبر کو بھی نہیں مانتے جس کے وہ پیرو ہیں اور انھوں نے اس عالمگیر صراط مستقیم کو نہیں پایا جسے حضرت موسیٰ یا حضرت عیسیٰ یا کسی دوسرے پیغمبروں نے پیش کیا تھا بلکہ وہ محض باپ دادا کی تقلید میں ایک پیغمبر کو مان رہے ہیں۔ ان کا اصل دین نسل پرستی یا اپنے آباء کی تقلید ہے اپنے پیغمبر کی پیروی نہیں ورنہ اُس کی سب باتیں مانتے۔ ہر نبی ایک ہی شریعت لے کر آیا ہے، جب ایك گزشتہ نبی کی امت شرک و جہالت اور فساد فی الارض میں مبتلا ہوجاتی اور کئی گروہوں میں بٹ جاتی تو ایک نئے نبی کی بعثت کی ضرورت پیش آتی ہے تمام انبیاء اپنے اپنے وقتوں میں واجب الاتباع ہوتے ہیں۔ البتہ دور کے تقاضوں کے مطابق کچھ سابقہ احکام منسوخ اور کچھ نئے احکام اس نئے نبی کو دیے جاتے ہیں۔ لہٰذا اب اتباع تو صرف اس نئے نبی کی واجب ہوئی۔ اور ایمان لانا سب پر واجب ہوتا ہے ۔ بعض انبیاء میں فرق و فضیلت: قرآن کی رو سے اللہ نے بعض رسولوں کو بعض پر فوقیت دی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ﴾ (البقرہ: ۲۵۳) ’’یہ پیغمبر كہ ہم نے ان میں سے بعض كو بعض پر فضیلت دی ہے۔ ‘‘ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’ہم دنیا میں سب سے بعد میں آئے ہیں اور قیامت کے دن ہم سب سے پہلے ہوں گے‘‘ فرق صرف یہی ہے کہ کچھ پر کتاب پہلے آگئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بعد میں دن تو جمعہ کا ہی تھا۔ یہودیوں نے ہفتہ کا دن مقرر کرلیا اور عیسائیوں نے اتوار کا حالانکہ کتاب تو جمعہ کے دن اتاری گئی تھی۔ (ـبخاری: ۸۷۶)