وَيَقُولُونَ لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ آيَةٌ مِّن رَّبِّهِ ۖ فَقُلْ إِنَّمَا الْغَيْبُ لِلَّهِ فَانتَظِرُوا إِنِّي مَعَكُم مِّنَ الْمُنتَظِرِينَ
اور وہ کہتے ہیں اس پر اس کے رب کی طرف سے کوئی نشانی کیوں نہ اتاری گئی؟ سو کہہ دے غیب تو صرف اللہ کے پاس ہے، پس انتظار کرو، بے شک میں (بھی) تمھارے ساتھ انتظار کرنے والوں سے ہوں۔
کفار کا حسی معجزے کا مطالبہ: یعنی ایسا معجزہ جیسے حضرت صالح علیہ السلام کے لیے اونٹنی پہاڑ سے نکالی گئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ایسی نشانی کیوں نہیں ملی۔ یا صفا پہاڑ کو سونے کا بنا دے، یا اس سے سرزمین سے کوئی چشمہ پھوٹ نکلے یا ہمارے گزرے ہوئے آباء و اجداد زندہ ہو کر ہمارے سامنے آکر ہمیں حقیقت حال سے مطلع کریں۔ اللہ کی قدرت اس سے عاجز نہیں لیکن اللہ کی حکمت کا تقاضا وہی جانتا ہے۔ اگر وہ چاہے تو اپنے نبی کے لیے باغات اور نہریں بنا دے لیکن اس کے بعد بھی اگر وہ ایمان نہ لائیں تو پھر اللہ کا قانون یہ ہے کہ ایسی قوم کو وہ فوراً ہلاک کر دیتا ہے۔ اس لیے اس بات کا علم صرف اسی کو ہے کہ کس قوم کو اس کی خواہشات کے مطابق معجزے ظاہر کر دینا اس کے حق میں بہتر ہے یا نہیں؟ اگلوں نے بھی ایسے معجزے طلب کیے جب دکھلائے گئے تو پھر نبیوں کو جھٹلایا تو عذاب الٰہی آگیا۔ رب تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا آپ چاہو تو میں ان کے منہ مانگے معجزے دکھا دوں۔ لیکن پھر بھی کافر رہے تو غارت کر دیے جائیں گے اور اگر چاہو تو مہلت دوں۔ آپ نے اپنے حلم و کرم سے دوسری بات ہی اختیار کی۔ بد نصیب لوگ اسی سے بدرجہا بڑھ کر معجزے دیکھ چکے مثلاً چاند کو ایک اشارے سے دو ٹکڑے کر دینا، ایک ٹکڑا کے ایک طرف اور دوسرا ٹکڑے کا دوسری طرف چلے جانا، کیا یہ معجزہ کسی اور معجزے سے کم تھا۔ قرآن بذات خود ایک بہت بڑا معجزہ ہے۔ لیکن چونکہ ان کا یہ سوال محض کفر کی بنا پر تھا ورنہ یہ بھی دکھا دیتا۔ دراصل جن پر عذاب عملاً آجاتا ہے وہ چاہے دنیا بھر کے معجزے دیکھ لیں۔ انھیں ایمان نصیب نہیں ہوتا اسی کا بیان سورہ حجر ۱۳، سورہ طور ۴۴ اور سورہ انعام ۷ میں بھی ہوا ہے۔ پس ایسے لوگوں کو ان کے منہ مانگے معجزے دکھانے بے سود ہیں، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم بھی انتظار کرو میں بھی تمھارے ساتھ انتظار کرتا ہوں کیونکہ میں غیب کی باتیں نہیں جانتا۔