رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
اے ہمارے رب! اور ان میں انھی میں سے ایک رسول بھیج جو ان پر تیری آیتیں پڑھے اور انھیں کتاب و حکمت سکھائے اور انھیں پاک کرے، بے شک تو ہی سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔
حضرت ابراہیم جانتے تھے کہ اللہ كا گھر کس طرح آباد ہوتا ہے۔ فرمایا: انھیں میں سے ایک رسول اٹھانا۔ کیونکہ وہ اسی زبان اور اسی علاقے سے ہوگا۔ ان کے مزاج سمجھتا ہوگا جو ان کو تیری آیات پڑھ کر سنائے گا۔ یہ دعا حضرت ابراہیم کی ہے جو اللہ نے پوری کی چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں سیدنا ابراہیم کی دعا ہوں۔‘‘ حکمت کیا ہے؟ لفظی معنی تو سمجھ اور دانائی ہے پھر اس میں وہ سب طریقے بھی شامل ہوجاتے ہیں جو کسی کام کو عملی طور پر انجام دینے کے لیے ضروری ہوں۔ امام شافعی نے اپنی تصنیف ’’ الرسالة‘‘ میں بے شمار دلائل سے یہ بات ثابت کی ہے کہ قرآن میں جہاں کہیں بھی حکمت کا لفظ کتاب کے ساتھ آیا ہے۔ تو اس سے مراد سنت رسول ہے۔ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے بعد کوئی شخص غرور سے ایسا نہ کہے کہ میں اللہ کی کتاب میں یہ حکم نہیں پاتا۔ خوب سن لو مجھے یہ کتاب یعنی قرآن بھی دیا گیا ہے اور اس کی مثل اتنا کچھ اور بھی ۔نیز قرآن کریم کی یہ آیت ﴿مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا١ۚ﴾ (الحشر: ۷)’’سوجو چیز تم كو پیغمبر دیں وہ لے لو اور جس سے منع كریں (اس سے ) باز رہو۔ ‘‘سنت رسول کو واجب قراردیتی ہے جن کا واضح نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو شخص سنت رسول کا منکر ہے وہ قرآن کا بھی منکر ہے ۔ پاکیزہ بنادے: سے مراد ان کے اخلاق۔ عادات۔ معاشرت۔ تمدن۔ سیاست غرض ہر چیز کو سنوارنا شامل ہے صحابہ کرام کی عملی تربیت کرنا بھی آپ کی ذمہ داری تھی۔ جیسے ایک دفعہ سیدنا ابوذر غفاری جو سابقین و اولین میں سے تھے اور آپ کو ان سے پیار بھی بہت تھا۔ انھوں نے سیدنا بلال کو صرف یہ کہا تھا ’’اے کالی ماں کے بیٹے‘‘ اس بات پر آپ نے سیدنا غفاری پر شدید گرفت کی فرمایا: تو ایسا شخص ہے جس میں ابھی جاہلیت کا اثر موجود ہے‘‘ یہ تھا آپ کاانداز تربیت اور اسی کو پاکیزہ کرنا کہتے ہیں۔