مَا كَانَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ وَمَنْ حَوْلَهُم مِّنَ الْأَعْرَابِ أَن يَتَخَلَّفُوا عَن رَّسُولِ اللَّهِ وَلَا يَرْغَبُوا بِأَنفُسِهِمْ عَن نَّفْسِهِ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ لَا يُصِيبُهُمْ ظَمَأٌ وَلَا نَصَبٌ وَلَا مَخْمَصَةٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَطَئُونَ مَوْطِئًا يَغِيظُ الْكُفَّارَ وَلَا يَنَالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَّيْلًا إِلَّا كُتِبَ لَهُم بِهِ عَمَلٌ صَالِحٌ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ
مدینہ والوں کا اور ان کے ارد گرد جو بدوی ہیں، ان کا حق نہ تھا کہ وہ رسول اللہ سے پیچھے رہتے اور نہ یہ کہ اپنی جانوں کو اس کی جان سے زیادہ عزیز رکھتے۔ یہ اس لیے کہ بے شک وہ، اللہ کے راستے میں انھیں نہ کوئی پیاس پہنچتی ہے اور نہ کوئی تکان اور نہ کوئی بھوک اور نہ کسی ایسی جگہ پر قدم رکھتے ہیں جو کافروں کو غصہ دلائے اور نہ کسی دشمن سے کوئی کامیابی حاصل کرتے ہیں، مگر اس کے بدلے ان کے لیے ایک نیک عمل لکھ دیا جاتا ہے۔ یقیناً اللہ نیکی کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔
رسول اللہ کو اپنی جان سے عزیز سمجھنے سے ایمان کی تکمیل ہوتی ہے: عبداللہ بن ہشام فرماتے ہیں کہ ہم اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ آپکے ساتھ تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے یارسول اللہ آپ میر ے نزدیک اپنی جان کے علاوہ ہر چیز سے محبوب ہیں۔‘‘آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’نہیں اس ذات کی قسم جسکے ہاتھ میں میری جان ہے جب تک میں تمہیں اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز نہ ہوجاؤں تم مومن نہیں ہوسکتے۔‘‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا! اللہ کی قسم اب آپ میرے نزدیک میری جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں آپ نے فرمایا ہاں اے عمر اب (صحیح بات بنی)۔ (بخاری: ۱۴) اہل مدینہ اور دیہاتیوں کو تنبیہ: وہ لوگ جو غزوہ تبوک میں حضور کے ساتھ نہیں گئے تھے، اللہ تعالیٰ ڈانٹ رہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو سفر تبو ک کی صعوبتیں برداشت کریں اور مسلمان اپنے گھروں میں آرام سے بیٹھے رہیں، ٹھنڈے پانی پیئیں باغ کے سایہ میں بیٹھیں اور کھجور کے تازہ تازہ خوشے کھائیں بے شک وہ اس ثواب سے محروم رہ گئے جو مجاہدین فی سبیل اللہ کو ملا۔ مجاہد کے ہر فعل کے بدلے ایک عمل صالح اسکے اعمال نامہ میں لکھ دیا جاتا ہے خواہ یہ فعل غیر احتیاری ہو جیسے بھوک پیاس کو برداشت کرنا، تھکاوٹ ہونا، راستے کی تکلیف برداشت کرنا یہ سب اعمال صالح میں شمار ہونگے اور خواہ یہ فعل اختیاری ہوں جیسے سفر طے کرنا، دشمن سے کوئی علاقہ چھیننا یا اس سے جنگ کرکے کامیابی حاصل کرنا، ان سب کاموں پر اللہ کی طرف سے اجر عظیم ملتا رہتا ہے اور رب کی ذات کسی کی محنت ضائع نہیں کرتی۔