وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ إِلَّا عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِّلَّهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ ۚ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَأَوَّاهٌ حَلِيمٌ
اور ابراہیم کا اپنے باپ کے لیے بخشش مانگنا نہیں تھا مگر اس وعدہ کی وجہ سے جو اس نے اس سے کیا تھا، پھر جب اس کے لیے واضح ہوگیا کہ بے شک وہ اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس سے بے تعلق ہوگیا۔ بے شک ابراہیم یقیناً بہت نرم دل، بڑا بردبار تھا۔
حضرت ابراہیم کے باپ آذر کا انجام: جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ کو بت پرستی سے منع فرمایا جس کے جواب میں باپ نے کہا یہاں سے نکل جا ورنہ میں تمہیں سنگسار کردوں گا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ تم سلامت رہو میں جارہا ہوں ۔ البتہ تمہارے لیے بخشش کی دعا کرتا رہوں گا۔ پھر جب آپ کو معلوم ہوگیا کہ وہ راہ راست پر آنے والا نہیں، اللہ کا دشمن ہے تو آپ نے اپنی بیزاری کا اظہار کردیا۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’ابراہیم قیامت کے دن اپنے والد آذر کو دیکھیں گے کہ ان کے منہ پر سیاہی اور گردو غبار ہوگا، آپ اس سے کہیں گے میں نے تمہیں کہا نہ تھا کہ میری نافرمانی نہ کرنا، آپ کا باپ کہے گا’’آج میں تمہاری نافرمانی نہیں کرونگا۔‘‘اس وقت سیدنا ابراہیم علیہ السلام عرض کریں گے پروردگار تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ میں قیامت کے دن تجھے رسوا نہ کرونگا، اور اس سے بڑھ کر کیا رسوائی ہوسکتی ہے کہ میرا باپ اس حال میں ہے۔‘‘اللہ تعالیٰ فرمائیں گے ’’میں نے کافروں پر جنت حرام کردی ہے۔‘‘پھر کہا جائے گا ’’ابراہیم ذرا اپنے پاؤں تلے تو دیکھو‘‘ اسی وقت انھیں اپنے باپ کی جگہ ایک نجاست سے لتھڑا ہوا بجو نظر آئے گا فرشتے اسکے پاؤں پکڑ کر دوزخ میں ڈال دیں گے۔ (بخاری: ۳۳۵۰) اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِيْمٌ کے معنی ہیں آہ بھرنے والا، آہ وزاری کرنے والا، بہت دعائیں کرنے والا، رقیق القلب اور نرم دل، یہ سب معانی ہی مراد لیے جا سکتے ہیں اور اس سے بڑی نرم دلی اور کیا ہوگی کہ باپ کہہ رہا ہے کہ یہاں سے نکل جاؤ اور آپ جواب دیتے ہیں کہ میں تو جا رہا ہوں پر تم سلامت رہو اور میں تمہارے لیے اپنے رب سے معافی بھی مانگوں گا۔