مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَىٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ
اس نبی اور ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے، کبھی جائز نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے بخشش کی دعا کریں، خواہ وہ قرابت دار ہوں، اس کے بعد کہ ان کے لیے صاف ظاہر ہوگیا کہ یقیناً وہ جہنمی ہیں۔
مشرکین کے لیے دعا مغفرت کی ممانعت: ابو طالب آپکے چچا کا جب آخری وقت آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس گئے اس وقت ان کے پاس ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’چچا جان لا الہ الا اللہ پڑھ لیں تاکہ میں اللہ کے ہاں آپکے لیے حُجت پیش کرسکوں، ابوجہل اور عبداللہ بن اُبی امیہ نے کہا ’’اے ابوطالب کیا عبدالمطلب کے مذہب سے انحراف کرو گے‘‘؟ اس پر ابوطالب نے کہا کہ میں تو ابوالمطلب کے دین پر ہوں پھر ابو طالب کا اسی حال میں انتقال ہوگیا، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’جب تک اللہ کی طرف سے مجھے روک نہیں دیا جائے گا میں آپکے لیے استغفار کرتا رہونگا۔‘‘جس پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ (بخاری: ۴۶۷۵) یعنی نبی اور مومنوں کو لائق نہیں کہ وہ مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا مانگیں گو وہ انکے قریبی رشتہ دار ہی ہوں۔ حدیث! ابن حاتم نے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبرستا ن کی طرف نکلے ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ وہاں آکر آپ ایک قبر کے پاس بیٹھ کر دیر تک مناجات میں مشغول رہے پھر رونے لگے۔ ہم بھی خوب روئے، پھر کھڑے ہوئے تو ہم سب بھی کھڑے ہوگئے آپ نے ہمیں بلایا اور فرمایا کہ تم کیوں روئے؟ ہم نے عرض کیا کہ آپ کو روتا دیکھ کر ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ قبر میری ماں آمنہ کی تھی۔ میں نے اسے دیکھنے کی اجازت چاہی جو مجھے ملی تھی اور روایت میں ہے کہ دعا کی اجازت نہ ملی اور یہ آیت اُتری۔ ’’ مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ‘‘ پس ماں کی محبت میں صدمہ ہونا چاہیے جو مجھے ہوا۔ دیکھو میں نے زیارت قبر سے تمہیں ممانعت کی تھی لیکن میں اب رخصت دیتا ہوں کیونکہ اس سے آخرت یاد آتی ہے۔ (مستدرک حاکم: ۲/ ۶۳۳)