وَمِمَّنْ حَوْلَكُم مِّنَ الْأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ ۖ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ ۖ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُهُمْ ۖ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ ۚ سَنُعَذِّبُهُم مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَىٰ عَذَابٍ عَظِيمٍ
اور ان لوگوں میں سے جو تمھارے ارد گرد بدویوں میں سے ہیں، کچھ منافق ہیں اور کچھ اہل مدینہ میں سے بھی جو نفاق پر اڑ گئے ہیں، تو انھیں نہیں جانتا، ہم ہی انھیں جانتے ہیں۔ عنقریب ہم انھیں دو بار عذاب دیں گے، پھر وہ بہت بڑے عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے۔
مدینہ کے چالاک منافقین: یعنی یہ اتنے چالاک اور ہوشیار ہیں اور ان کا نفاق اتنا گہرا اور پر اسرار ہے کہ وہ اسکو ظاہر نہیں ہونے دیتے۔ تَمَرَّدَ فَلَانٌ عَلَی اللّٰہِ: اس وقت کہتے ہیں جب کوئی اللہ تعالیٰ کے سامنے سرکشی اور نافرمانی کرے۔ تم نہیں جانتے ہم جانتے ہیں: یہاں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ انھیں تم نہیں جانتے ہم جانتے ہیں، کتنے واضح الفاظ میں یہ بتایا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علم غیب نہیں جانتے، کاش اہل بدعت کو قرآن سمجھنے کی توفیق ہو۔ ان کے نفاق کو صرف اللہ ہی جانتا ہے جو دلوں کے رازوں اور ارادوں تک واقف ہے۔ منافقوں کو دو مرتبہ سزا: ایک دنیا کا عذاب ہوگا چنانچہ انکو اپنی اولادوں اور تمام مومنوں کے سامنے ذلت و رسوائی ہوگی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ جمعہ کے خطبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فلاں تو نکل جا۔ فلاں تو نکل جا تو منافق ہے۔ پس بہت سے لوگوں کے نکل جانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کا نفاق مسلمانوں پر کھل گیا ان کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے علم دیا تھا۔ (ابن کثیر: ۲/ ۶۰۶) یہ تو تھا پہلا عذاب کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں مسجد سے نکلوا دیا اور دوسرا عذاب عالم برزخ یعنی قبر کا ہوگا۔ یہ دونوں عذاب قیامت کے بڑے عذاب سے پہلے انھیں بھگتنا ہونگے اسکے علاوہ انکی ذہنی اور روحانی کوفت بھی بڑھتی جائے گی جو اسلام کی ترقی سے انھیں ہوگی۔