الْأَعْرَابُ أَشَدُّ كُفْرًا وَنِفَاقًا وَأَجْدَرُ أَلَّا يَعْلَمُوا حُدُودَ مَا أَنزَلَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
بدوی لوگ کفر اور نفاق میں زیادہ سخت ہیں اور زیادہ لائق ہیں کہ وہ حدیں نہ جانیں جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کی ہیں اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔
بدوی کافروں اور منافقوں کے خصائل: جنگلوں، صحراؤں اور دیہاتوں میں رہنے والے اور شہروں میں رہنے والے منافقوں کے اخلاق و کردار کے مقابلہ میں دیہاتی لوگوں کے اخلاق و کردار میں درشتی اور کھردرا پن زیادہ پایا جاتا ہے۔ اسی طرح یہ کفر و نفاق میں بھی شہریوں سے زیادہ سخت اور احکام شریعت سے زیادہ بے خبر تھے۔ ان کی زندگی حیوانی سطح پر ہی ہوتی ہے جسکا کوئی مقصد سوائے اسکے کہ کسی نہ کسی طرح شکم پروری کرلی جائے اور کچھ نہیں ہوتا۔ دیہاتی لوگ زیادہ اُجڈ ہوتے ہیں: ان دیہاتی لوگوں نے فتح مکہ کے بعد اسلام اس لیے قبول کرلیا کہ غالب فریق کے ساتھ لگ جائیں، لیکن جو پابندیاں اسلام کی رو سے عائد ہوتی ہیں مثلاً نماز کا باقائدہ اہتمام، زکوٰۃ کی ادائیگی، اللہ کی راہ میں جان و مال کے ساتھ جہاد اور اس راہ میں پیش آنے والے مصائب پر صبر و برداشت وغیرہ ان باتوں کے لیے یہ لوگ ذہنی طور پر تیار نہیں تھے۔ دین سمجھنے کے لیے علم کی ضرورت ہے: صحرائی زندگی کی وجہ سے اُجڈ اور اکھڑ پن ان میں موجود ہوتا ہے علم و حکمت کی مجلسوں سے دور رہنے کی وجہ سے تہذیب و شائستگی، علم و عرفان کی روشنی بہت کم قبول کرتے ہیں اسی لیے یہ بدوی نفاق میں شہری منافقوں کی نسبت زیادہ سخت ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ دیہاتوں میں رہنے کی وجہ سے ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سننے کا اتفاق نہیں ہوتا۔ جو ان کے دلوں کو نرم کرتا اور مہذب بناتا۔ کیونکہ دین کا علم ہی وہ چیز ہے جو انسان کے دل کو نرم کرتا ہے۔ ایک موقع پر کچھ اعرابی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انھوں نے پوچھا۔ کیا تم اپنے بچوں کو بوسہ دیتے ہو۔ صحابہ نے عرض کیا۔ ہاں انھوں نے کہا واللہ ہم تو بوسہ نہیں دیتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا ’’اگر اللہ نے تمہارے دلوں سے رحم و شفقت کا جذبہ نکال دیا ہے تو میرا اس میں کیا اختیار ہے۔(بخاری: ۵۹۹۸)