يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ مَا قَالُوا وَلَقَدْ قَالُوا كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَكَفَرُوا بَعْدَ إِسْلَامِهِمْ وَهَمُّوا بِمَا لَمْ يَنَالُوا ۚ وَمَا نَقَمُوا إِلَّا أَنْ أَغْنَاهُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ مِن فَضْلِهِ ۚ فَإِن يَتُوبُوا يَكُ خَيْرًا لَّهُمْ ۖ وَإِن يَتَوَلَّوْا يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ عَذَابًا أَلِيمًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۚ وَمَا لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ
وہ اللہ کی قسم کھاتے ہیں کہ انھوں نے بات نہیں کہی، حالانکہ بلاشبہ یقیناً انھوں نے کفر کی بات کہی اور اپنے اسلام کے بعد کفر کیا اور اس چیز کا ارادہ کیا جو انھوں نے نہیں پائی اور انھوں نے انتقام نہیں لیا مگر اس کا کہ اللہ اور اس کے رسول نے انھیں اپنے فضل سے غنی کردیا۔ پس اگر وہ توبہ کرلیں تو ان کے لیے بہتر ہوگا اور اگر منہ پھیر لیں تو اللہ انھیں دنیا اور آخرت میں درد ناک عذاب دے گا اور ان کے لیے زمین میں نہ کوئی دوست ہوگا اور نہ کوئی مدد گار۔
توہین رسالت کلمہ کفر ہے: وہ کلمہ جو منافقوں بنے کہا تھا، قرآن نے یہاں اسکی تصریح نہیں کی۔ اس لیے کہ یہ کوئی ایک آدھ واقعہ نہ تھا، ان لوگوں نے کئی موقعوں پر ایسے کلمات کفر کہے تھے، جیسا کہ روایات میں مذکور ہے۔ ایک واقعہ جسکا ذکر اجمالاً تذکرہ سورۃ منافقون اور تفصیلی تذکرہ بخاری میں مذکور ہے، یہ ہے: زید بن ارقم کہتے کہ ایک لڑائی میں میں نے عبداللہ بن اُبی کو کہتے سنا کہ لوگو! تم پیغمبر کے پاس جو مہاجرین جمع ہوگئے ہیں تم ان کو خرچ کے لیے کچھ نہ دو، یہ خود بخود ان کو چھوڑ کر چلے جائیں گے اور ہم اگر لڑائی سے لوٹ کر مدینہ پہنچے تو عزت والا (یعنی عبداللہ بن ابی) ذلت والے (نعوذ باللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کو نکال باہر کرے گا، میں نے یہ باتیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کیں انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچادیں۔ آپ نے مجھے بلوایا تو میں نے ان باتوں کا اقرار کیا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن اُبی اور اسکے ساتھیوں کو بلایا تو وہ مکر گئے اور قسمیں کھانے لگے کہ ہم نے ہرگز ایسا نہیں کہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جھوٹا سمجھا اور عبداللہ بن ابی کو سچا۔ اس بات کا مجھے اتنا رنج ہوا جتنا پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔ میں گھر بیٹھا رہا۔ اس وقت سورۂ منافقون نازل ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلا بھیجا اور یہ سورۃ منافقون پڑھ کر مجھے سنائی بعد میں فرمایا ’’زید اللہ نے تمہاری تصدیق کردی۔‘‘ (بخاری: ۰۱/ ۴۹۰۰) ایک واقعہ غزوہ تبوک سے واپسی پر منافقین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ایک سازش کی جس میں کامیاب نہ ہوسکے۔ دس بارہ منافقین ایک گھاٹی میں آپکے پیچھے لگ گئے۔ جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم لشکر سے الگ تقریباً تنہا گزر رہے تھے ان کا منصوبہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کرکے نعوذ باللہ آپ کا کام تمام کردیا جائے گا، اسکی اطلاع بذریعہ وحی آپکو دے دی گئی جس سے آپ نے بچاؤ کرلیا۔ مسلمانوں کے ساتھ منافقوں کی بھی آسودگی: جب مسلمان ہجرت کرکے مدینہ آئے تو مدینہ کی معیشت پر یہودی چھائے ہوئے تھے، مالدار، سود خور قوم، تجارت ان کے ہاتھ میں جنگی آلات بناتے اور بیچتے تھے، شراب کا کاروبار بھی کرتے تھے۔ سیاسی برتری بھی ان کو حاصل تھی۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو یہ سیاسی برتری یہود کی بجائے مسلمانوں کے حصہ میں آگئی۔ آپ کی دعا کی برکت سے انصار و مہاجرین میں مواخات قائم ہوگئی۔ اور مسلمانوں کی معیشت سنبھلتی گئی۔ اموال غنیمت سے مسلمانوں کے ساتھ منافق بھی آسودہ ہوگئے اللہ تعالیٰ منافقوں سے فرما رہے ہیں کہ اللہ اور اسکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے تمہیں آسودگی حاصل ہوئی ہے پھر اگر انہی سے دشمنی اور نمک حرامی کا ثبوت دو گے تو تمہیں دنیا میں ذلت و رسوائی اور آخرت میں سخت عذاب بھگتنا ہو گا۔