سورة التوبہ - آیت 43

عَفَا اللَّهُ عَنكَ لِمَ أَذِنتَ لَهُمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَتَعْلَمَ الْكَاذِبِينَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

اللہ نے تجھے معاف کردیا، تو نے انھیں کیوں اجازت دی، یہاں تک کہ تیرے لیے وہ لوگ صاف ظاہر ہوجاتے جنھوں نے سچ کہا اور تو جھوٹوں کو جان لیتا۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

عتاب سے پہلے معافی کا اعلان: سبحان اللہ! اللہ کی اپنے محبوب سے کیسی باتیں ہورہی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سخت بات کہنے سے پہلے ہی معافی کا اعلان سنایا جارہا ہے۔ آپ سے کہا جارہا ہے کہ جہاد میں شرکت نہ کرنے والوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر یہ تحقیق کیے کہ ان کے پاس معقول عذر ہے بھی کہ نہیں؟ اجازت دے دی، یاد رہے یہ تنبیہ اس لیے کی گئی ہے کہ اجازت دینے میں عجلت کی گئی اور پورے طور پر تحقیق کی ضرورت نہیں سمجھی گئی۔ ورنہ تحقیق کے بعد ضرورت مندوں کو اجازت دینے کی آپ کو اجازت حاصل تھی جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَاِذَا اسْتَاْذَنُوْكَ لِبَعْضِ شَاْنِهِمْ فَاْذَنْ ﴾ (النور: ۶۲) ’’جب یہ لوگ تجھ سے اپنے بعض کاموں کی وجہ سے اجازت مانگیں تو جس کو چاہیے اجازت دے دیں۔‘‘ جس کو چاہے کا یہ مطلب ہے جس کے پاس معقول عذر ہو اسے اجازت دینے کا تجھے حق حاصل ہے۔