يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَٰذَا ۚ وَإِنْ خِفْتُمْ عَيْلَةً فَسَوْفَ يُغْنِيكُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ إِن شَاءَ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ حَكِيمٌ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بات یہی ہے کہ مشرک لوگ ناپاک ہیں، پس وہ اپنے اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب نہ آئیں اور اگر تم کسی قسم کے فقر سے ڈرتے ہو تو اللہ جلد ہی تمھیں اپنے فضل سے غنی کر دے گا، اگر اس نے چاہا۔ بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔
مشرکین کو حدود حرم سے نکال دو: مشرک نجس (پلید) ہونے کا مطلب یعنی یہ لوگ اپنے مشرکانہ اور کفریہ عقائد و اعمال کے لحا ظ ناپاک ہیں۔ اس لیے ان کو بیت اللہ شریف کے پاس نہ آنے دیں۔ یہ وہی حکم ہے جو ۹ ہجری میں اعلان براءت کے ساتھ بیان کیا گیا تھا۔ اکثر علماء کے نزدیک یہاں مسجد حرام سے مراد پورا حرم ہے یعنی حدود حرم کے اندر مشرک کا داخلہ ممنوع ہے۔ خلیفة المسلمین حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے اپنے دور حکومت یہود و نصاریٰ کو بھی مسلمانوں کی مسجدوں میں داخلے سے ممانعت کا حکم جاری فرمایا تھا۔ (ابن کثیر: ۲/ ۵۴۶) مفلسی کا ڈر اور اللہ غنی کر دے گا: مشرکین کی ممانعت سے بعض مسلمانوں کے دل میں خیال آیا کہ حج کے موسم میں زیادہ اجتماع کی وجہ سے جو تجارت ہوتی ہے یہ متاثر ہوگی اللہ تعالیٰ نے فرمایا مفلسی یعنی کاروبار کی کمی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ عنقریب تمہیں اپنے فضل سے غنی کردے گا، چنانچہ فتوحات کی وجہ سے کثرت سے مال غنیمت مسلمانوں کو حاصل ہوا اور پھر بتدریج سارا عرب بھی مسلمان ہوگیا اور حج کے موسم میں حاجیوں کی ریل پیل پھر اسی طرح ہوگئی جس طرح پہلے تھی بلکہ اس سے کہیں زیادہ ہو گئی۔