وَقَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ لَوْلَا يُكَلِّمُنَا اللَّهُ أَوْ تَأْتِينَا آيَةٌ ۗ كَذَٰلِكَ قَالَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِم مِّثْلَ قَوْلِهِمْ ۘ تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ ۗ قَدْ بَيَّنَّا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ
اور ان لوگوں نے کہا جو نہیں جانتے ہم سے اللہ کلام کیوں نہیں کرتا ؟ یا ہمارے پاس کوئی نشانی کیوں نہیں آتی؟ ایسے ہی ان لوگوں نے جو ان سے پہلے تھے، ان کی بات جیسی بات کہی، ان کے دل ایک دوسرے جیسے ہوگئے ہیں۔ بے شک ہم نے ان لوگوں کے لیے آیات کھول کر بیان کردی ہیں جو یقین کرتے ہیں۔
ان کا مطلب یہ تھا کہ خدا خود ہمارے سامنے آکر کہے کہ یہ میری کتاب ہے اور یہ میرے احکام ہیں اسی صورت میں ہم ایمان لاسکتے ہیں۔ یہ سب جہالت کی باتیں ہیں پہلے لوگ بھی ایسے مطالبے کرتے ہیں اور آج بھی جاہل لوگ اسی طرح کے مطالبے کررہے ہیں ۔ یعنی مزاج کے لحاظ سے پہلے گمراہوں اور آج کے گمراہوں میں کچھ فرق نہیں۔ ایسے جاہل لوگ ایک ہی قسم کے اعتراضات اور مطالبات پیش کرتے رہتے ہیں۔ جن لوگوں نے ایمان لانا ہو ان کے لیے تو اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں کوئی کمی نہیں اور ان کا ایمان توپختہ سے پختہ تر ہوتاجاتاہے۔ اور جو لوگ کفر پر اڑرہے ہیں ان کے لیے البتہ کوئی نشانی نہیں۔