مَا كَانَ لِلْمُشْرِكِينَ أَن يَعْمُرُوا مَسَاجِدَ اللَّهِ شَاهِدِينَ عَلَىٰ أَنفُسِهِم بِالْكُفْرِ ۚ أُولَٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ وَفِي النَّارِ هُمْ خَالِدُونَ
مشرکوں کا کبھی حق نہیں کہ وہ اللہ کی مسجدیں آباد کریں، اس حال میں کہ وہ اپنے آپ پر کفر کی شہادت دینے والے ہیں۔ یہ وہ ہیں جن کے اعمال ضائع ہوگئے اور وہ آگ ہی میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔
مشرکوں کو اللہ کے گھر سے کوئی تعلق نہیں: یعنی اللہ کے ساتھ شرک کرنے والوں کو اللہ کی مسجدوں کو آباد کرنے سے کیا تعلق،یہ ایمان والوں کا کام ہے نہ کہ کفر و شرک کرنے والوں کا، جو اسکا ارتکاب و اعتراف کرتے ہیں جیسے کہ وہ تلبیہ میں کہا کرتے تھے۔ ((لَاشَرِیْکَ لَکَ اِلَّا شَرِیْکَ ھُوَلَکَ تَمْلِکُہُ)) (مسلم: ۱۱۸۵) یا اس سے مراد وہ اعتراف ہے جو ہر مذہب والا کرتا ہے کہ میں یہودی ہوں، نصرانی ہوں، صابی یا مشرک ہوں۔ (فتح القدیر: ۳/ ۲۳۰) ان کے اس شرک کی وجہ سے ان کے سارے اعمال اکارت گئے اور وہ ہمیشہ کے لیے جہنمی ہیں کیونکہ ان کے وہ عمل جو بظاہر نیک لگتے ہیں جیسے طواف وغیرہ اور حاجیوں کی خدمت وغیرہ، کیونکہ ایمان کے بغیر یہ اعمال ایسے ہیں جیسے وہ درخت جو بےثمر ہو، یا ان پھولوں کی طرح جن میں خوشبو نہ ہو۔