وَإِنْ أَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّىٰ يَسْمَعَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْلَمُونَ
اور اگر مشرکوں میں سے کوئی تجھ سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دے دے، یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سنے، پھر اسے اس کی امن کی جگہ پر پہنچا دے۔ یہ اس لیے کہ بے شک وہ ایسے لوگ ہیں جو علم نہیں رکھتے۔
امن مانگنے والوں کو امن دو: اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کو حکم فرماتا ہے کہ جن کافروں سے آپکو جہاد کا حکم دیا گیا ہے اگر کوئی کافر پناہ طلب کرے تو اُسے پناہ دے دو یعنی اسے اپنی حفظ و امان میں رکھو تاکہ کوئی مسلمان اسے قتل نہ کرسکے، اور تاکہ اُسے اللہ کی باتیں سننے اور اسلام کو سمجھنے کا موقعہ ملے، ممکن ہے کہ اس طرح اُسے توبہ کرنے اور اسلام قبول کرنے کی توفیق مل جائے، لیکن اگر وہ قرآن سننے کے باوجود مسلمان نہیں ہوتا تو اسے اسکی امن کی جگہ یعنی اسے گھر تک پہنچادو۔ مطلب یہ ہے کہ اپنی امان کی پاسداری آخر تک کرنی ہے، جب تک وہ اپنے گھر تک بحفاظت پہنچ نہیں جاتا، اسکی جان کی حفاظت تمہاری ذمہ داری ہے۔ پناہ کی رخصت اس لیے دی گئی کہ یہ بے علم لوگ ہیں ممکن ہے اللہ اور اسکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں ان کے علم میں آئیں، اور مسلمانوں کا اخلاق و کردار وہ دیکھیں تو اسلام کی صداقت و حقانیت کے قائل ہوجائیں اور اسلام قبول کرکے آخرت کے عذاب سے بچ جائیں، جس طرح صلح حدیبیہ کے بعد امان طلب کرکے مدینہ آتے جاتے رہے اور انھیں مسلمانوں کے اخلاق و کردار سے اسلام کو سمجھنے میں بڑی مدد ملی اور بہت سے لوگ مسلمان ہوگئے۔ منافقوں کی گردن مار دو: ایک روایت میں ہے کہ مسیلمہ کذاب مدعی نبوت کا قاصد جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پہنچا، آپ نے اس سے پوچھا ’’کیا تم مسیلمہ کی رسالت کے قائل ہو۔‘‘اس نے کہا! ہاں۔ آپ نے فرمایا اگر قاصدوں کا قتل میرے نزدیک نا جائز نہ ہوتا تو میں تیری گردن اُڑا دیتا، آخر یہ شخص حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی کوفہ کی امارت کے زمانے میں قتل کردیا گیا۔ (تفسیر طبری: ۱۴/ ۱۳۹)