يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ ۚ إِن يَكُن مِّنكُمْ عِشْرُونَ صَابِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ ۚ وَإِن يَكُن مِّنكُم مِّائَةٌ يَغْلِبُوا أَلْفًا مِّنَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُونَ
اے نبی! ایمان والوں کو لڑائی پر ابھار، اگر تم میں سے بیس صبر کرنے والے ہوں تو وہ دو سو پر غالب آئیں اور اگر تم میں سے ایک سو ہوں تو ان میں سے ہزار پر غالب آئیں جنھوں نے کفر کیا۔ یہ اس لیے کہ بے شک وہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھتے نہیں۔
جہاد کی ترغیب: ترغیب سے مراد خوب رغبت دلانا اور شوق پیدا کرنا، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جنگ سے پہلے صف بندی کے وقت، مقابلے کے وقت برابر فوجوں کا دل بڑھاتے، جیسا کہ بدر کے موقعہ پر مشرکین اپنی بھاری تعداد اور بھرپور وسائل کے ساتھ میدان میں آموجود ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسی جنت میں جانے کے لیے کھڑے ہوجاؤ جس کی چوڑائی آسمانو ں اور زمین کے برابر ہے ایک صحابی عمیر بن حمام رضی اللہ عنہ نے کہا اُس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ہاں اس پر بخ بخ کہا یعنی خوشی کا اظہار کیا اور یہ اُمید کی کہ میں بھی جنت میں جانے والوں میں سے ہوں گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اس میں جانے والوں میں سے ہوگئے چنانچہ انھوں نے اپنی تلوار کی میان توڑ ڈالی اور کھجوریں نکال کر کھانے لگے۔ پھر فرماتے ہیں کہ جتنی دیر میں انھیں کھاؤنگا تو یہ تو طویل زندگی ہوگی، کھجوریں پھینک دیتے ہیں اور دشمنوں کے گردنیں مارتے ہوئے راہ حق میں شہید ہوجاتے ہیں۔(مسلم: ۱۹۰۱) مسلمانوں کے لیے بشارت: اگر تم ثابت قدمی اور صبر و استقلال سے لڑو تو بیس مجاہد دوسو پر اور سومجاہد ایک ہزار پر غالب رہیں گے، علاوہ ازیں کافروں کو موت ناگوار ہوتی ہے۔ اور مومن کا اپنی جان قربان کرنے کا مقصد اللہ کے کلمہ کی سربلندی، بالادستی اور رضائے الٰہی کا حصول ہے۔ یہی وہ ایمانی قوت ہے کہ مومن اپنے جیسے ہم طاقت دس کافروں سے مقابلہ کرنے سے ہمت نہیں ہارتا۔