وَلَوْ تَرَىٰ إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا ۙ الْمَلَائِكَةُ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبَارَهُمْ وَذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ
اور کاش! تو دیکھے جب فرشتے ان لوگوں کی جان قبض کرتے ہیں جنھوں نے کفر کیا، ان کے چہروں اور پشتوں پر مارتے ہیں۔ اور جلنے کا عذاب چکھو۔
ربط مضمون کے لحاظ سے تو اس آیت کا روئے سخن غزوہ بدر میں مارے گئے کافروں کی طرف ہے تاہم اس کا حکم عام ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ کاش اے پیغمبر! آپ دیکھتے کہ فرشتے کس بُری طرح کافروں کی روح قبض کرتے ہیں، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب مشرکین مسلمانوں کی طرف آتے تو مسلمان ان کے چہروں پر تلواریں مارتے جس سے بچنے کے لیے وہ پیٹھ پھیر کر بھاگتے تو فرشتے ان کی دبروں پر تلواریں مارتے۔ (احمد: ۱/ ۳۰، ح: ۲۰۸) اور ہر کافرو و مشرک کی موت کے وقت فرشتے ان کے (منہ اور پشتوں یا) دبروں پر مارتے ہیں جس طرح سورۃ انعام ۹۳ میں ذکر ہے فرشتے ان کو مارنے کے لیے ہاتھ دراز کرتے ہیں، اور بعض کے نزدیک فرشتوں کی یہ مار قیامت والے دن جہنم کی طرف لے جاتے ہوئے ہوگی اور داروغہ جہنم کہے گا ’’تم جلنے کا مزا چکھو۔‘‘