لِيَمِيزَ اللَّهُ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَيَجْعَلَ الْخَبِيثَ بَعْضَهُ عَلَىٰ بَعْضٍ فَيَرْكُمَهُ جَمِيعًا فَيَجْعَلَهُ فِي جَهَنَّمَ ۚ أُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ
تاکہ اللہ ناپاک کو پاک سے جدا کر دے اور ناپاک کو، اس کے بعض کو بعض پر رکھے، پس اسے اکٹھا ڈھیر بنا دے، پھر اسے جہنم میں ڈال دے۔ یہی لوگ خسارہ اٹھانے والے ہیں۔
پاک کو نا پاک سے الگ کر دے گا : یہ علیحدگی یا تو آخرت میں ہوگی کہ اہل سعادت کو گنہگا روں سے الگ کردیا جائے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ امْتَازُوا الْيَوْمَ اَيُّهَا الْمُجْرِمُوْنَ﴾ (یٰٓس: ۵۹) ’’اے گناہ گارو آج الگ ہو جاؤ۔‘‘ یعنی نیک لوگوں سے الگ ہو جاؤ اور مجرموں یعنی کافروں، مشرکوں اور نافرمانوں کو اِکٹھا کر کے سب کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ یا پھر اس آیت کا تعلق دنیا سے ہے یعنی کا فر جومال اللہ کے راستے سے روکنے کے لیے خرچ کر رہے ہیں، ہم ان کو ایسا کرنے کا موقع دیں گے تاکہ اسطرح اللہ تعالیٰ خبیث کو طیب سے، کافر کو مومن سے اور منا فق کو مخلص سے علیحد ہ کر دے، یعنی کفار کے ذریعے ہم تمہاری آزمائش کریں گے وہ تم سے لڑیں گے اور ہم انھیں ان کے مال بھی لڑائی پر خرچ کرنے کی قدرت دیں گے، تاکہ خبیث طیب سے ممتاز ہو جائے،پھر وہ خبیث کو ایک دوسرے سے ملا دے گا، یعنی سب کو جمع کر دے گا۔ (ابن کثیر: ۲/ ۴۸۹)