لِيُحِقَّ الْحَقَّ وَيُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَلَوْ كَرِهَ الْمُجْرِمُونَ
تاکہ وہ حق کو سچا کر دے اور باطل کو جھوٹا کر دے، خواہ مجرم ناپسند ہی کریں۔
اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ تمہارا مقابلہ لشکر قریش سے ہوتا کہ کفر کی قوت و شوکت ٹوٹ جائے، گو یہ امر مشرکوں کے لیے نا گوار ہی ہو ۔قوت کے بغیر حق ثابت کرنا ممکن نہیں ہوتا اور باطل کو باطل کرنا ممکن نہیں ہوتا، رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے مشورہ ضروری سمجھا۔ جیسا کہ گزشتہ حدیث میں ذکر ہے۔ چنانچہ اس موقعہ پر حضرت مقداد بن اسودرضی اللہ عنہ نے یہ کہا كہ ہم وہ با ت نہیں کہیں گے جو موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے کہی تھی کہ جاؤ تم اور تمہارا پروردگار لڑلے ہم تو آپ کے دائیں سے، بائیں سے آگے سے اور پیچھے سے بھی لڑیں گے۔ عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاچہرہ چمکنے لگا اوران کے اس قول نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش کر دیا۔(بخاری: ۳۹۵۲) آپ نے انصار سے مشورہ بالخصو ص اس لیے ضروری سمجھا کیونکہ انصاراپنے معاہدہ کی روسے اس بات کے تو پابند تھے کہ اگر مدینہ پر کفار کا حملہ ہوا تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیں گے،مگر یہ حملہ مدینہ پر نہیں تھا اس کے علاوہ مجاہدین میں انصار کی تعداد زیادہ تھی ۔