سورة الاعراف - آیت 201

إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِّنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُوا فَإِذَا هُم مُّبْصِرُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

یقیناً جو لوگ ڈر گئے، جب انھیں شیطان کی طرف سے کوئی (برا) خیال چھوتا ہے وہ ہشیار ہوجاتے ہیں، پھر اچانک وہ بصیرت والے ہوتے ہیں۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

جو لوگ اللہ سے ڈرنے والے ہیں، نیکیاں کرنے والے اور بُرائیوں سے رُوکنے والے ہیں، انھیں جب کبھی غصہ آجائے یا شیطان کا وار ان پر چل جائے، یعنی شیطا ن ان کے دل میں کسی گناہ کی رغبت ڈالے تو یہ فوراََ چو کنے ہوجاتے ہیں تو بہ کرلیتے ہیں۔اللہ کی طرف جُھک جاتے ہیں، اور اللہ سے شیطانی شر سے پناہ مانگتے ہیں ۔ ابن مردویہ نے روایت کیا ہے کہ ایک عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی جسے مرگی کادورہ پڑا کرتا تھا اس نے درخواست کی کہ آپ میرے لیے دعا کیجئے آپ نے فرمایا اگر تم چاہو تو میں دعُا کروں اور اللہ تمہیں شفابخشے اور اگر چاہوتو صبر کرو تو اللہ تم سے حساب نہ لے گا،اُس نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں صبر کرتی ہوں کہ میرا حساب معاف ہوجائے۔ سنن میں بھی یہ حدیث ہے صبر کرو تو تمہیں جنت ملے گی، اس نے کہا میں صبر کرتی ہوں کہ مجھے جنت ملے، لیکن اتنی دُعا ضرور کیجئے کہ میں بے پردہ نہ ہو جایا کروں آپ نے دُعا کی چنانچہ ان کا کپڑا کیسی ہی وہ تلملا تیں جگہ سے نہ ہٹتا۔ (بخاری: ۵۶۵۲، مسلم: ۲۵۷۶) حافظ ابن عسا کر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں ا یک عابد نوجوان مسجد میں رہا کرتا تھا، ایک عورت نے اُس پر ڈورے ڈالنے شروع کیئے یہاں تک کہ وہ اسکی کو ٹھری میں چلا گیا کہ اُسے اچانک یہ آیت ’’اِذَا مَسَّھُمْ‘‘ یاد آئی تو غش کھا کر گر پڑا بہت دیر بعد جب ہوش آیا تو پھر اس نے آیت کو یاد کیا اور اسقدر اللہ کا خو ف اس کے دل میں سمایا کہ اسکی جان نکل گئی، حضرت فاروق رضی اللہ عنہ نے اسکے والد سے ہمدردی اور غم خواری کی لوگوں کے ساتھ آپ انکی قبر پر گئے وہا ں جا کر نماز جنازہ ادا کی اور آواز دے کر فرمایا (وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہِ جَنَّتَانِ) جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر رکھے اس کے لیے دو دو جنتیں ہیں، اسی وقت قبر کے اندر سے آواز آئی کہ مجھے میرے رب عزوجل نے دونوں مرتبے دو دو عطا فرما دیے۔یہ تو حال تھا اللہ والوں اور پرہیز گاروں کا کہ وہ شیطانی جھٹکوں سے بچ جاتے ہیں اسکے فریب سے چھوٹ جاتے ہیں۔ (ابن کثیر: ۲/ ۴۴۸)