أَمْ تُرِيدُونَ أَن تَسْأَلُوا رَسُولَكُمْ كَمَا سُئِلَ مُوسَىٰ مِن قَبْلُ ۗ وَمَن يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ
یا تم ارادہ رکھتے ہو کہ اپنے رسول سے سوال کرو، جس طرح اس سے پہلے موسیٰ سے سوال کیے گئے اور جو کوئی ایمان کے بدلے کفر کو لے لے تو بے شک وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا۔
سورۂ مائدہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: مسلمانو اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے سوال نہ پوچھو کہ اگر ان کا جواب دیا جائے تو تمہیں بُرا لگے۔ سوال کرنا منع نہیں کیونکہ سوال سے ہی تو صحیح طریقہ زندگی کا پتہ چلتا ہے لیکن موسیٰ کی قوم کی طرح نہیں کیونکہ وہ ایمان سے زیادہ کفر کے قریب تھے۔ بے جا مطالبات اور کثرت سوالات سے روکا گیا ہے اس لیے کہ انسان راہ راست سے بھٹک جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو بار بار متنبہ فرمایا کہ بال کی کھال اتارنے کی وجہ سے پچھلی امتیں تباہ ہوئیں ۔ لہٰذا تم ایسی باتوں سے پرہیز کرو اور جن باتوں کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں چھیڑا ان میں خواہ مخواہ كی کرید نہ کرو۔ ’’مسلمانوں میں سب سے بڑا مجرم وہ ہے جس نے ایسی چیز کے متعلق سوال کیا جو حرام نہیں تھی مگر اس کے سوال کی وجہ سے حرام کر دی گئی۔ ‘‘ ’’کوہ صفا کو آپ سونا بنادیجئے۔ آپ نے فرمایا: ہاں سونا بنانا ممکن ہے مگر اس کے بعد اگر کفر کیا تو؟‘‘ (بخاری: ۶۴۹۱) نوح علیہ السلام کا بیٹے کے بارے میں سوال کہ وہ تو میرا بیٹا تھا جسے تونے ہلاک کردیا۔ اللہ نے فرمایا: یہ تیرے گھر والوں میں سے نہیں تھا ۔ وہ تو ایک بگڑا ہوا کام ہے تو اس بات کا مجھ سے سوال نہ کر جس کی حقیقت تو نہیں جانتا۔ ایك حدیث میں وارد ہے كہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ میں جب تک کچھ نہ کہوں تم بھی کچھ نہ پوچھو جب میں حکم دوں تو اپنی طاقت کے مطابق عمل کرو اور اگر نہ کرسکو تو رُک جاؤ۔‘‘ (مسلم: ۱۲)