سورة الاعراف - آیت 190

فَلَمَّا آتَاهُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَهُ شُرَكَاءَ فِيمَا آتَاهُمَا ۚ فَتَعَالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ

ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد

پھر جب اس نے انھیں تندرست بچہ عطا کیا تو دونوں نے اس کے لیے اس میں شریک بنا لیے جو اس نے انھیں عطا کیا تھا، پس اللہ اس سے بہت بلند ہے جو وہ شریک بناتے ہیں۔

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

شریک بنانے سے مراد : یا تو بچے کا نام ایسا رکھنا مثلاً امام بخش، پیراں دتہ، عبدالشمس وغیرہ جس سے یہ اظہارہوتاکہ یہ بچہ فلاں بزرگ، فلاں پیر (نعوذ باللہ) کی نظرکرم کا نتیجہ ہے یا پھر اپنے اس عقیدے کا اظہار کر ناکہ فلاں بزرگ یا فلاں قبر پر گئے تھے، جس کے نتیجہ میں یہ بچہ پیدا ہوا ہے، یا کسی مرد ے کے نام کی نذر نیاز دینا، یا بچہ کا کسی قبر پر لے جا کر ماتھا ٹکانا کہ ان کے طفیل بچہ پیدا ہواہے،یہ ساری صورتیں اللہ کا شریک ٹھہرانے کی ہیں، جو بدقسمتی سے مسلمانوں میں بھی یہ سب باتیں آج کل عام ہیں ۔ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ: ’’بچہ تو دین فطرت پر پیدا ہوتا ہے،یہ اُس کے ماں باپ ہیں جو اُسے عیسائی،یہودی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔‘‘ (بخاری: ۱۳۵۹)