قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۚ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ ۚ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
کہہ دے میں اپنی جان کے لیے نہ کسی نفع کا مالک ہوں اور نہ کسی نقصان کا، مگر جو اللہ چاہے اور اگر میں غیب جانتا ہوتا تو ضرور بھلائیوں میں سے بہت زیادہ حاصل کرلیتا اور مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی، میں نہیں ہوں مگر ایک ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والا ان لوگوں کے لیے جو ایمان رکھتے ہیں۔
عالم الغیب صرف اللہ: یہ آیت اس بات میں اتنی واضح ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب نہیں عالم الغیب صرف اللہ کی ذات ہے،اور آپ کہہ دو کہ میں بھی تمہاری طرح کا انسان ہوں، میں تو صرف وہ دیتا ہوں جو اللہ مجھے معلوم کراد ے جیسا کہ سورہ جن آیت نمبر26 میں ہے کہ عالم الغیب اللہ تعالیٰ ہی ہے، وہ اپنے غیب پر کسی کو آگاہ نہیں کرتا اگر مجھے غیب کا علم ہوتا تومیں اپنے لیے بہت سی بھلائیاں سمیٹ لیتا۔ کُتب حدیث میں بہت سے واقعات درج ہیں جیسے یہ واقعہ جب حضر ت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگی اور آپ ایک مہینہ سخت مضطرب اور پریشان رہے۔ ایک یہودی عورت نے آپکے کھانے کی دعوت میں زہر ملا دیا، جسے آپ نے اور صحابہ نے تناول فرمایا،بعض صحابہ تو کھانے کے زہر سے ہلاک ہی ہو گئے اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم عمر بھر اس زہر کے اثرات محسو س فرماتے رہے، ایسے متعد د واقعات ہیں، جنگ میں دندان مبارک شہید ہوئے، چہرہ زخمی ہوا وغیرہ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: غیب کی پانچ چابیاں ہیں کوئی نہیں جانتا غیب کیا ہے ۔ (1) قیامت کا علم اللہ کو ہے (2) رحم مادر میں کیا ہے اور کیا عمل کرے گا ۔ (3) کوئی نہیں جانتا کہ کب مرے گا اور کہاں دفن ہو گا، (4) رزق کے بارے میں (5)بارش کے بارے میں۔ (بخاری: ۴۶۲۷) ابن عباس رضی اللہ عنہما کاقول ہے، اگر مجھے علم ہوتا کہ اس چیز کے خریدنے میں نفع ہے تو میں مال جمع کرلیتا اور اسے خرید لیتا اور اگر خریداری میں نقصان ہے تو نہ خریدتا خشک سالی کے لیے ترسالی میں ذخیرہ جمع کر لیتا، ارزانی کے وقت گرانی کے علم سے سودا جمع کر لیتا کبھی کوئی بُرائی مجھے نہ پہنچتی کیو نکہ علم غیب سے جان لیتا کہ یہ برائی ہے تو میں پہلے سے ہی اسکی تیاری کرلیتا، لیکن میں علم غیب نہیں جانتا اس لیے فقیری بھی مجھ پر آتی ہے،تکلیف بھی ہوتی ہے۔ (الدر المنثور: ۳/ ۶۲۲) پیغمبر وں کا کام: انبیاء کرام علیہ السلام لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈراتے ہیں، ایمانداروں کو جنت کی خوشخبر ی سناتے ہیں ۔یہی کا م رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا، جیسا کہ رب تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿فَاِنَّمَا يَسَّرْنٰهُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّرَ بِهِ الْمُتَّقِيْنَ وَ تُنْذِرَ بِهٖ قَوْمًا لُّدًّا﴾ (مریم: ۹۷) ’’ ہم نے اسے تیری زبان پر آسان کردیا ہے کہ تو پرہیزگاروں کو خوشخبری سنادے اور بُروں کو ڈرادے۔‘‘