وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ الَّذِي آتَيْنَاهُ آيَاتِنَا فَانسَلَخَ مِنْهَا فَأَتْبَعَهُ الشَّيْطَانُ فَكَانَ مِنَ الْغَاوِينَ
اور انھیں اس شخص کی خبر پڑھ کر سنا جسے ہم نے اپنی آیات عطا کیں تو وہ ان سے صاف نکل گیا، پھر شیطان نے اسے پیچھے لگا لیا تو وہ گمراہوں میں سے ہوگیا۔
دنیا اور خواہشات نفس کے پیچھے پڑنے والوں کی مثال: اس شخص کا نام نہ قرآن میں مذکور ہے اور نہ آحادیث میں، لیکن اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ نہایت اخلاقی بلندی ہے کہ کسی بُرے شخص کا نا م نہیں لیا جاتا بلکہ صرف اسکی خصلت کو بیا ن کرد یا جاتا ہے، تاکہ دوسرے لوگ اس سے بچ جائیں اور اصل مقصد بھی حاصل ہو جائے اور یہ مثال ہر اس شخص پر صادق آتی ہے، جو ایسی صفات رکھتا ہو۔ یہ شخص آیات الٰہی کا عالم،با عمل اور مستجاب الدعوات تھا ۔اور لوگوں میں اسکے زہد و تقوی ٰ کی شہرت بھی تھی چند لوگوں نے اس کے پاس آخر ایسی دُعا کی درخواست کی جو شرعاَنا جائز تھی، پہلے تو اس نے انکار کردیا، لیکن جب ان لوگوں نے بہت مال و دولت کا لالچ دیا توتھوڑی سی پس و پیش کے بعد وہ اس نا جائز کام پر آمادہ ہو گیا، اس سے دنیوی فائدہ تو حاصل ہو گیا، لیکن جس بلند مقام پر وہ جارہا تھا اور آگے جانے کا ارادہ رکھتا تھا، اس سے گرگیا، ایک دفعہ شیطان کا داؤچل گیا، پھر آگے شیطان کا کا م نسبتاً آسان ہو جاتا ہے، چنا نچہ تھوڑے ہی عر صے بعد وہ اللہ کا پورا نافرمان بن گیا، اور اپنے ارفع مقام سے گرتا گرتا انتہائی پستی تک پہنچ گیا، اس شخص یا اس جیسے شخص کی مثال اللہ تعالیٰ نے اُس کُتے سے دی ہے جسکی حر ص اور لالچ کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص اُسکی طرف پتھر پھینکے تو وہ یہی سمجھتا ہے کہ شاید کسی نے ہڈی یا روٹی کا ٹکڑا پھینکا ہے، پھر وہ اسے ایک بار ضرور منہ میں لیتا ہے، اسکی زبان ہر وقت باہر نکلی اور رال ٹپکتی رہتی ہے، جو ایک نہ بجھنے والی آتش حر ص اور کبھی نہ سیر ہونے والی نیت کا پتا دیتی ہے، ہر چیز کو سونگھنے کی کوشش کرتا ہے کہ شایدکہیں کھانے کی بو پا سکے اسکی حرص کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اگر اسے کھانے کے لیے کہیں سے مردار مل جائے جو اسکی ضرورت سے کہیں زیادہ ہوتو پھر بھی اسکی کوشش یہی ہوتی ہے کہ کوئی دوسرا کُتا اس کے ساتھ مردار کھانے میں شریک نہ ہو، یہ مثال دنیا کے کُتوں پر صادق آتی ہے، جو اپنی خواہشات اور دنیوی مفادات کی خاطر اپنی اچھی سے اچھی قدروں کو قربان کردینے پر تیار ہو جاتے ہیں۔