فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ وَرِثُوا الْكِتَابَ يَأْخُذُونَ عَرَضَ هَٰذَا الْأَدْنَىٰ وَيَقُولُونَ سَيُغْفَرُ لَنَا وَإِن يَأْتِهِمْ عَرَضٌ مِّثْلُهُ يَأْخُذُوهُ ۚ أَلَمْ يُؤْخَذْ عَلَيْهِم مِّيثَاقُ الْكِتَابِ أَن لَّا يَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ وَدَرَسُوا مَا فِيهِ ۗ وَالدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يَتَّقُونَ ۗ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
پھر ان کے بعد ان کی جگہ نالائق جانشین آئے، جو کتاب کے وارث بنے، وہ اس حقیر دنیا کا سامان لیتے ہیں اور کہتے ہیں ہمیں ضرور بخش دیا جائے گا اور اگر ان کے پاس اس جیسا اور سامان آجائے تو اسے بھی لے لیں گے، کیا ان پر کتاب کا عہد نہیں لیا گیا کہ اللہ پر حق کے سوا کچھ نہ کہیں گے اور انھوں نے جو کچھ اس میں ہے پڑھ لیا ہے اور آخری گھر ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو ڈرتے ہیں، تو کیا تم نہیں سمجھتے؟
اس آ یت میں اگلی نسلوں کے ناخلف جا نشینوں کی خصو صیات بیان کی گئی ہیں، کہ وہ تو بالکل ہی نا خلف ثابت ہوئے، انھوں نے اُس کتاب کو بیچنا شروع کردیا جس کے وہ وارث ہوئے او رجو انھیں دنیا کا امام بنا نے والی تھی، دنیا کے کُتے بن گئے، دراصل وہ یہ زعم رکھتے تھے کہ ہم اللہ کے چہیتے ہیں، انبیاء کی اولاد ہیں اس لیے ہم جیسے بھی عمل کریں اللہ ہمیں عذاب نہیں دے گا، اور معاف کردے گا،بجائے اس کے وہ گناہ کرکے نادم و شرمسار ہوں، اللہ کے حضور تو بہ کریں بلکہ وہ پھر سے تیار بیٹھے ہوتے ہیں کہ کوئی آدمی مسئلہ یا فتوی پو چھنے والا آئے تو اس سے بھی رشوت لے لیں،دولت جھاڑلیں حالانکہ ان سے پختہ عہد لیا گیا تھا، کہ وہ کوئی بات اللہ کی طرف ناحق منسوب نہیں کریں گے، اور یہ بات وہ کتاب میں پڑ ھتے اور پڑھاتے بھی ہیں اسکے باوجوانھوں نے یہ بات اللہ کے ذمہ لگا دی کہ وہ جیسے بھی عمل کرلیں اللہ انھیں عذاب نہیں دے گا کیو نکہ وہ انبیاء کی اولاداور اللہ کے چہیتے ہیں کیایہ بات وہ تورات میں دکھلا سکتے ہیں۔ آخرت کا گھر: اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے بہتر ہے، اور اللہ سے ڈرنے وا لے دنیا کی بجا ئے آخرت کے گھر کو ہی ترجیح دیتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ اخروی زندگی دنیا کی زندگی سے بدرجہا بہتر ہوگی! کاش تم لوگوں کو اس بات کی سمجھ آجائے۔