وَقَالَ الْمَلَأُ مِن قَوْمِ فِرْعَوْنَ أَتَذَرُ مُوسَىٰ وَقَوْمَهُ لِيُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ۚ قَالَ سَنُقَتِّلُ أَبْنَاءَهُمْ وَنَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قَاهِرُونَ
اور فرعون کی قوم کے سرداروں نے کہا کیا تو موسیٰ اور اس کی قوم کو چھوڑے رکھے گا، تاکہ وہ زمین میں فساد پھیلائیں اور وہ تجھے اور تیرے معبودوں کو چھوڑ دے؟ اس نے کہا ہم ان کے بیٹوں کو بری طرح قتل کریں گے اور ان کی عورتوں کو زندہ رکھیں گے اور یقیناً ہم ان پر قابو رکھنے والے ہیں۔
لوگو ں کا ایمان لانا : یہ ہر دور کے مفسدین کا شیوا رہا ہے کہ وہ اللہ والوں کو فسادی اور ان کی دعوت توحید و ایمان کو فساد سے تعبیر کرتے ہیں ۔ یہاں بھی ایسا ہی ہوا، بہت سے اسرائیلی حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئے حتیٰ کہ چند (قبطی) فرعونی بھی آپ پر ایمان لے آئے، یہ صورت حال دیکھ کر سرداران فرعون فرعون سے کہنے لگے کہ کہیں یہ مل کر بغاوت ہی نہ کر دیں اور تجھے اور تیرے معبودوں کو چھوڑ دیں ۔فرعون کو بھی اگر چہ دعوائے ربو بیت تھا (انا ر بکم الاعلیٰ) میں تمہارا بڑا رب ہوں (وہ کہا کرتا تھا) لیکن چھوٹے چھوٹے دوسرے معبود بھی تھے، جن کے ذریعے سے لوگ فرعون کا تقرب حاصل کرتے تھے۔ بنی اسرائیل کو دوسر ی بار قتل کی سزا: بنی اسرائیل پر بیٹوں کے قتل کا عذاب دوبار مسلط کیا گیا، پہلی دفعہ جب فرعون رعمسیس نے نجومیوں کے بتانے پر ہر پیدا ہونے والے لڑکے کو قتل کر دیا جاتا تھا، لیکن اللہ کی شان کہ جس بچے نے فرعون کو برباد کرنا تھا اس بچے کی پرورش کا انتظام اُسی فرعون کے گھر کردیا، دوسری بار اسی فرعون کے بیٹے نے باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے حکم دیا کہ میں ان کے بیٹوں کو مروا دو نگا اور عورتوں کو زندہ رکھوں نگا یعنی لڑکوں کو مروا کر نسل ختم کر دوں گا اور عورتوں سے یہ لوگ طرح طرح کی بیگار لیا کرتے تھے، گویا اپنے تئیں اُس نے اپنے آپ کو خطرے سے بچانے کی تدابیر مکمل کرلیں، اور وہ اپنے آپ کو اس پر قادر سمجھتا تھا۔