سورة الاعراف - آیت 97
أَفَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرَىٰ أَن يَأْتِيَهُم بَأْسُنَا بَيَاتًا وَهُمْ نَائِمُونَ
ترجمہ عبدالسلام بھٹوی - عبدالسلام بن محمد
تو کیا بستیوں والے بے خوف ہوگئے کہ ہمارا عذاب ان پر راتوں رات آجائے اور وہ سوئے ہوئے ہوں۔
تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین
ان آیات سے ایک بات تو یہ معلوم ہوتی ہے کہ اللہ کا عذاب دفعتاً آتا ہے، جبکہ لوگ اس سے بالکل بے خبر اور غافل ہوتے ہیں ۔ خواہ رات کو آئے جب وہ غفلت کی نیند سو رہے ہوں یا دن کے وقت جب وہ اپنے کا م کاج یا کھیل تفریح میں مشغول ہوں ۔ گویا موت کی طرح اسکا بھی کوئی وقت مقرر نہیں، موت کے آثار تو بسا اوقات محسوس ہونے لگتے ہیں مگر ایسی گرفت ہمیشہ ناگہانی طور پر ہی آتی ہے ۔ امام حسن بصری کا قول ہے کہ: ’’مومن نیکیا ں کرتا ہے اور پھرڈرتا رہتا ہے ۔اور فاسق فاجر شخص بُرائیاں کرتا ہے اور بے خوف رہتا ہے ۔ نتیجے میں مومن امن پاتا ہے اور فاجر پیس دیا جا تا ہے۔‘‘