فَتَوَلَّىٰ عَنْهُمْ وَقَالَ يَا قَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَاتِ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ ۖ فَكَيْفَ آسَىٰ عَلَىٰ قَوْمٍ كَافِرِينَ
پھر وہ ان سے واپس لوٹا اور اس نے کہا اے میری قوم! بلاشبہ یقیناً میں نے تمھیں اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیے اور میں نے تمھاری خیرخواہی کی، تو میں نہ ماننے والے لوگوں پر کیسے غم کروں۔
عذاب آچکنے کے بعد جب حضرت شعیب علیہ السلام وہاں سے چلے تو انھوں نے وفور جذبا ت میں یہ باتیں کہیں کہ میں اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو چکا، اللہ کا پیغام سنا چکا میں نے تم لوگوں کو بہت سمجھایا، بجھایا ۔غم خواری، خیر خواہی کی، لیکن تم کافر کے کافرہی رہے، تو اب میں ایسے لوگوں پر افسوس کروں تو کیوں کروں۔ آیت59سے93تک پانچ مشہور انبیاء کی دعوت اور منکرین کی مخالفت، ان کے سوال و جواب اور بالآخر نا فرمانوں کی ہلاکت کا ذکر کیا گیا ہے، سورۂ اعراف مکہ میں اسوقت نازل ہوئی جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپکے اصحاب اسی قسم کے یاان سے ملتے جلتے حالات سے دو چار تھے، یہاں انبیاء کے حالات بیان کرنے کا مقصد ایک تو یہ تھا کہ ر سول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام مخالفین کی سرگرمیوں پر صبر و ضبط سے کام لیں اور دوسرا یہ سمجھانا مقصودتھا ظالموں کو بالآخر اپنے برے انجام سے دوچار ہو نا ہی پڑتا ہے، اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ان ظالم لوگوں سے نجات دیکر کا میا بی و کامرانی سے ہمکنار کرتے ہیں۔