فَعَقَرُوا النَّاقَةَ وَعَتَوْا عَنْ أَمْرِ رَبِّهِمْ وَقَالُوا يَا صَالِحُ ائْتِنَا بِمَا تَعِدُنَا إِن كُنتَ مِنَ الْمُرْسَلِينَ
تو انھوں نے اونٹنی کو کاٹ ڈالا اور اپنے رب کے حکم سے سرکش ہوگئے اور انھوں نے کہا اے صالح! لے آ ہم پر جس کی تو ہمیں دھمکی دیتا ہے، اگر تو رسولوں سے ہے۔
اونٹنی کا انجام: اس قوم نے معجزہ کا مطالبہ کیا اور وہ ان کے لیے وبال جان بن گیا کیونکہ جتنا پانی وہ پیتی تھی اتنا سارے جانور پیتے تھے اور جتنا چارہ وہ چرتی تھی اتنا سارے جانور کھاتے تھے، قوم ثمود دل سے تو یقین کرچکے تھے کہ صالح سچے نبی ہیں، لیکن دل سے ہر کافر اس اونٹنی سے جان چھڑانا چاہتا تھا۔ آخر باہمی مشورے سے ایک بدبخت تنومند آدمی نے اسکا ذمہ لے لیا کہ وہ اس اونٹنی کو ٹھکانے لگا دے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ کے دوران فرمایا کہ یہ شخص اپنی قوم کا ایک زور آور، شریر، مضبوط شخص تھا جو اونٹنی کو زخمی کرنے کی مہم پر کھڑا ہوا۔ اور اسکا نام قدار تھا اور وہ اپنی قوم میں ایسے ہی تھا جیسے تم میں ابو زمعہ (جو سیدنا زبیر بن عوام کا چچا تھا)۔ (فتح الباری: ۱/ ۲۹۶) یہ قدار بن سالف سرخ رنگ کا نیلی آنکھوں والا، بڑے ڈیل ڈول کا مالک اور والد الزنا تھا خود بھی بدکار تھا اور شہر کے مشہور نوبد معاشوں کا سرغنہ تھا، چنانچہ جب اس نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں تو اونٹنی نے ایک ہولناک قسم کی چیخ ماری اور دوڑ کر اسی پہاڑی کی طرف چلی گئی جس سے برآمد ہوئی تھی اسکا بچہ بھی اپنی ماں کے ساتھ چلا گیا اور یہ دونوں معجزانہ طور پر اسی پہاڑی میں غائب ہوگئے۔