أَوَعَجِبْتُمْ أَن جَاءَكُمْ ذِكْرٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَلَىٰ رَجُلٍ مِّنكُمْ لِيُنذِرَكُمْ وَلِتَتَّقُوا وَلَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ
اور کیا تم نے عجیب سمجھا کہ تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے تم میں سے ایک آدمی پر ایک نصیحت آئی، تاکہ وہ تمھیں ڈرائے اور تاکہ تم بچ جاؤ اور تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کی دعوت کے جواب میں منکرین کی طرف سے ایک جیسے اعتراضات ہی سامنے آتے تھے مثلاً تم ہمارے ہی جیسے آدمی ہوکر اللہ کے رسول کیسے ہوسکتے ہو۔ اسی اعتراض کا جواب نوح علیہ السلام بھی دے رہے ہیں کہ تم اس بات کو انوکھا اور تعجب والا نہ سمجھو کہ اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم سے کسی انسان پر وحی نازل فرمائے اور اُسے اپنی پیغمبری سے ممتازکردے تاکہ وہ تمہیں ہوشیار کردے، اور تم شرک و کفر سے الگ ہو کر عذاب الٰہی سے نجات پالو۔ اور تم پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوں۔