لَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ فَقَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ
بلاشبہ یقیناً ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تو اس نے کہا اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں، بے شک میں تم پر ایک بہت بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔
شرک کا آغاز کیسے ہوا: حضرت آدم علیہ السلام کی وفات کے بعد مدتوں انکی اولاد راہِ ہدایت پر قائم رہی پھر آہستہ آہستہ ان میں بگاڑ پیدا ہونے لگا، اور یہ پہلے بتایا جاچکا ہے کہ فساد فی الارض کی بنیاد شرک پر ہی اٹھتی ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے شرک کا آغاز اس طرح ہوا کہ اس قوم میں وقتا فوقتاً پانچ بزرگ و صالح لوگ وفات پاگئے، جنھیں دیکھ کر ہی اللہ تعالیٰ کی یاد آنے لگتی تھی۔ ان کی وفات کے بعد لوگوں نے ان کے خلا کو بُری طرح محسوس کیا۔ اور انھوں نے انکی قبروں پر سجدہ گاہیں یعنی عبادت خانے قائم کردیے اور ان کی تصویریں بھی بنا کر لٹکادیں مقصد ان کا یہ تھا کہ اس طرح انکی یاد سے وہ بھی اللہ کا ذکر کریں گے اور ذکر الٰہی میں انکی مشابہت اختیار کریں گے، کچھ عرصہ گزرا کہ شیطان نے انھیں پٹی پڑھائی کہ تم ان کے مجسمے بناکر سامنے رکھ لو۔ تو تمہارا دل اللہ کی عبادت میں اسی طرح لگے گا جس طرح انکی موجودگی میں لگتا تھا۔ سادہ لوح لوگ شیطان کے فریب میں آگئے انھوں نے پانچ بزرگوں کے مجسمے بناکر مسجدوں میں رکھ لیے یہ لوگ تو ان مجسموں کو دیکھ کر اللہ ہی کی عبادت کرتے تھے۔ مگر بعد میں آنیوالی نسلوں نے انہی مجسموں کی پرستش شروع کردی، قوم نوح کے یہ صالحین ودّ، سواع، یعوق یغوث اور نسر تھے جو بعد میں معبود بن گئے۔ (بخاری: ۴۹۲۰) ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو ان میں نبی بناکر بھیجا جنھوں نے ساڑھے نو سو سال تک تبلیغ کی۔ لیکن تھوڑے سے لوگوں کے سوا کسی نے آپ کی تبلیغ کا اثر قبول نہیں کیا، بالآخر اہل ایمان کے سوا سب کو غرق کردیا گیا۔ اس آیت میں بتایا جا رہا ہے کہ قوم نوح علیہ السلام نے اس بات پر تعجب کا اظہار کیا کہ ان ہی میں سے ایک آدمی کو نبی بناکر بھیج دیا گیا ہے جو انھیں اللہ کے عذاب سے ڈرا رہا ہے۔ یعنی ان کے خیال میں نبوت کے لیے انسان موزوں نہیں۔