وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَبَاتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ ۖ وَالَّذِي خَبُثَ لَا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِدًا ۚ كَذَٰلِكَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَشْكُرُونَ
اور جو شہر پاکیزہ ہے اس کی کھیتی اس کے رب کے حکم سے نکلتی ہے اور جو خراب ہے (اس کی کھیتی) ناقص کے سوا نہیں نکلتی۔ اس طرح ہم آیات کو ان لوگوں کے لیے پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں جو شکر کرتے ہیں۔
معاشرے میں دو قسم کے لوگ ہیں: پچھلی آیت میں مردہ زمین کے زندہ ہوجانے اور اخروی زندگی پر استدلال کیا گیا ہے اس آیت میں مختلف قسم کے لوگوں کے دلوں کی کیفیت کو زمین کے مختلف طبقات کے مانند قراردے کر لوگوں کا حال بیان کیا جارہا ہے۔ وَ الْبَلَدُ الطَّيِّبُ سے مراد قبول کرنے والا دل، اور البلد الخبیث سے مراد کند ذہن ہے۔ قبول کرنے والے کے برعکس دل یعنی قلب مومن یا قلب منافق یا پاکیزہ انسان اور ناپاک انسان مراد ہے۔ مومن پاکیزہ انسان اور وعظ و نصیحت قبول کرنے والا دل: بارش کو قبول کرنے والی زمین کی طرح آیات الٰہی کو سن کر ایمان و عمل صالح میں مزید پختہ ہوتا ہے ۔ اور دوسرا دل اس کے برعکس جیسے شور زدہ زمین ہے جو بارش کا پانی قبول ہی نہیں کرتی یا کرتی ہے تو برائے نام، جس سے پیداوار بھی نکمی اور برائے نام ہی ہوتی ہے۔ یہ مثال مومن اور کافر کی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’جس علم و ہدایت کے ساتھ اللہ نے مجھے بھیجا ہے اسکی مثال ایسی ہے جیسے زمین پر بہت زیادہ بارش ہوئی۔ زمین کے ایک صاف عمدہ ٹکڑے نے تو پانی قبول کیا، گھاس اور چارہ خوب اُگایا یعنی بھرپور پیداوار دی، اور اس کے بعض حصے سخت تھے، جنھوں نے پانی تو روک لیا (اندر جذب نہیں ہوا) تاہم اس سے بھی لوگوں نے فائدہ اٹھایا، خود بھی پیا، کھیتوں کو سیراب بھی کیا اور کاشت کاری کی ۔ اور زمین کا کچھ حصہ بالکل چٹیل تھا جس نے نہ پانی روکا اور نہ کچھ اُگایا پس یہ اس شخص کی مثال ہے جس نے اللہ کے دین کی سمجھ حاصل کی، اور اللہ نے مجھے جس چیز کے ساتھ بھیجا ہے اس سے اس نے نفع اٹھایا پس خود بھی علم حاصل کیا اور دوسروں کو بھی سکھایا ۔ اور مثال اس شخص کی بھی ہے جس نے کچھ نہیں سیکھا اورنہ وہ ہدایت ہی قبول کی جس کے ساتھ مجھے بھیجا گیا۔ (بخاری: ۷۹)