وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِم مِّنْ غِلٍّ تَجْرِي مِن تَحْتِهِمُ الْأَنْهَارُ ۖ وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَٰذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَا أَنْ هَدَانَا اللَّهُ ۖ لَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ ۖ وَنُودُوا أَن تِلْكُمُ الْجَنَّةُ أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
اور ان کے سینوں میں جو بھی کینہ ہوگا ہم نکال دیں گے، ان کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ کہیں گے سب تعریف اللہ کی ہے جس نے ہمیں اس کی ہدایت دی اور ہم کبھی نہ تھے کہ ہدایت پاتے، اگر یہ نہ ہوتا کہ اللہ نے ہمیں ہدایت دی، بلاشبہ یقیناً ہمارے رب کے رسول حق لے کر آئے۔ اور انھیں آواز دی جائے گی کہ یہی وہ جنت ہے جس کے وارث تم اس کی وجہ سے بنائے گئے ہو جو تم کیا کرتے تھے۔
جنت میں داخلے سے پہلے باہمی کدورتوں کا خاتمہ: غلّ اس کینے اور بُغض کو کہا جاتا ہے جو سینوں میں چھپا ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اہل جنت پر یہ انعام بھی فرمائے گا کہ ان کے سینوں میں ایک دوسرے کے خلاف بغض، کینہ، کدورت، عداوت کے جو جذبات ہونگے وہ دور کردے گا ۔ پھر ان کے دل آئینے کی طرح صاف ہوجائیں گے۔ ایک روایت میں ہے کہ مومن آگ سے چھٹکارا حاصل کرکے جنت و دوزخ کے درمیان ایک پل پر روک دیے جائیں گے۔ وہاں ان کے آپس کے مظالم کا بدلہ ہوجائے گا اور پاک ہوکر جنت میں جانے کی اجازت پائیں گے، واللہ وہ اپنے اپنے درجوں اور مکانوں کو اس طرح پہچان لیں گے جیسے دنیا میں جان لیتے تھے بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ (بخاری: ۲۴۴۰) بعض نے اس آیت سے یہ مطلب لیا ہے کہ اہل جنت کے درمیان درجات و منازل کا جو فرق ہوگا اس پر وہ ایک دوسرے سے حسد نہیں کریں گے۔ پہلے مفہوم کی تائید مندرجہ بالا حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’بدگمانی سے بچو، ظاہر عیب تلاش نہ کرو، حسد و بغض نہ کرو، باطنی عیوب تلاش نہ کرو، ایک دوسرے سے روگردانی نہ کرو، آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو۔‘‘ (بخاری: ۶۰۶۶) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی باہمی رنجش: جو سیاسی رقابت میں ان کے درمیان ہوئیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے ’’مجھے اُمید ہے کہ میں عثمان، طلحہ، اور زبیر رضی اللہ عنہم ان لوگوں میں سے ہوں گے جن کے بارے میں اللہ نے فرمایا ہے: ’’جن کے دل اللہ صاف کردے گا۔‘‘ فرماتے ہیں کہ ہم اہل بدر کے بارے میں یہ آیت اُتری ہے۔ جنت کا ملنا محض اللہ کی رحمت سے: اہل جنت،جنت میں جاکر اللہ کا شکر ادا کریں گے کہ اگر اللہ ہمیں ہدایت نہ دیتا تو ہم یہاں نہیں پہنچ سکتے تھے اور کہیں گے یقینا ہمارے رسول حق لیکر آئے تھے اور اللہ تعالیٰ کہیں گے کہ یہ تمہارے نیک اعمال کا صلہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان دنیا میں چاہے کتنے ہی نیک اعمال کرے وہ تو اللہ کے دنیا کے احسانات کابدلہ بھی نہیں چکا سکتا، پھر جنت کا حقدار کیسے ہوسکتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یاد رکھو تم میں سے کوئی بھی اپنے اعمال کی وجہ سے جنت میں نہیں جاسکتا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہنے لگیں کیا آپ بھی نہیں؟ آپ نے فرمایا ’’میں بھی نہیں مگر یہ کہ اللہ اپنی رحمت و فضل سے مجھے ڈھانپ لے۔‘‘ (بخاری: ۶۴۶۳)