وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ لَمْ يَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ
اور بلاشبہ یقیناً ہم نے تمھارا خاکہ بنایا، پھر ہم نے تمھاری صورت بنائی، پھر ہم نے فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو تو انھوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس، وہ سجدہ کرنے والوں سے نہ ہوا۔
(٢) نسل انسنای کی سعادت و شقاوت کی ابتدئی سرگزشت اور ہدایت وحی کی ابتداء۔ (الف) پہلے انسان کے وجود کی تخلیق ہوئی پھر اس کی صورت بنی پھر وہ وقت آیا کہ آدم کا ظہور ہوا اور اس نے وہ مقام حاصل کرلیا کہ ملائکہ کو حکم ہوا کہ اس کے آگے سربسجود ہوجاؤ۔ (ب) ملائکہ نے تعمیل کی لیکن ابلیس نے انکار و سرکشی کی راہ اختیار کی۔ (ج) آدم سے بھی لغزش ہوئی لیکن اس نے سرکشی نہیں کی، عجز و اعتراف کیا اور سر جھکا دیا۔ (د) اب بنی آدم کے لیے دو راہیں ہوگئیں : ایک آدم والی کہ احکام الہی کی اطاعت کرنا اور اگر قصور ہوجائے تو توبہ و انابت کا سر جھکا دینا۔ دوسری ابلیس والی کہ پہلے نافرمانی کرنا پھر عجز و اعتراف کی جگہ سرکشی و تکبر کی چال چلنا۔ جو پہلی راہ چلے گا کامیاب ہوگا، جو دوسری راہ چلے گا نامراد ہوگا۔ (ہ) ابلیس کے گھمنڈ اور گستاخانہ جرات کے ذکر میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ برائی کی قوتیں جب سر اٹھاتی ہیں تو ان کی سرکشی کا ایسا ہی حال وہتا ہے اور (د) یہاں ڈھیل اور مہلت سب کے لیے ہے۔ اچھوں کے لیے بھی اور بروں کے لیے بھی۔ یاد رہے کہ قرآن نے حقائق کی دو قسمیں کردیں ہیں۔ ایک وہ جن کا تعلق عالم غیب سے ہے۔ یعنی غیر محسوسات سے، ایک وہ جن کا تعلق عالم شہادت سے ہے یعنی محسوسات سے۔ نوع انسان کی ابدائی پیدائش اور نشو ونما کا معاملہ عالم غیب سے تعلق رکھتا ہے کیونکہ ہم اپنے وسائل ذہن و ادراک سے کوئی یقینی روشنی اس بارے میں حاصل نہیں کرسکتے اور اس لیے ضروری ہے کہ کتاب الہی نے جو کچھ بیان کیا ہے اس پر ایمان لائیں۔ آدم (علیہ السلام) کی سرگزشت کی تاریخ تورات ہی سے شروع نہیں ہوتی بلکہ آثار قدیمہ کے انکشافات نے اسے بہت قدیم عہد تک پہنچا دیا ہے۔ کم سے کم یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ تورات سے کئی ہزار سال پہلے اہل مصر میں کسی ایسے واقعہ کا اعتقاد عام تھا چنانچہ لڈیا کی اینٹوں پر اس کے نقوش ملے ہیں َ اور زیریں کے عہد میں اس کی تصاویر نمایاں ہیں اور ہیرو غلیفی نقوش بھی اس کے اشاروں سے خالی نہیں۔