وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا أَشْرَكُوا ۗ وَمَا جَعَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا ۖ وَمَا أَنتَ عَلَيْهِم بِوَكِيلٍ
اور اگر اللہ چاہتا تو وہ شریک نہ بناتے، اور ہم نے تجھے ان پر محافظ نہیں بنایا اور نہ تو ان پر کوئی نگہبان ہے۔
44: پیچھے آیت نمبر 35 میں بھی یہ مضمون آچکا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر چاہتا تو سارے انسانوں کو زبردستی ایک ہی دین کا پابند بنا دیتا، لیکن درحقیقت انسان کو دنیا میں بھیجنے کا بنیادی مقصد امتحان ہے، اور اس امتحان کا تقاضا یہ ہے کہ انسان زور زبردستی سے نہیں، بلکہ خود اپنی سمجھ سے کام لے کر ان دلائل پر غور کرے جو پوری کائنات میں بکھرے پڑے ہیں، اور پھر اپنی مرضی سے توحید، رسالت اور آخرت پر ایمان لائے، انبیائے کرام ان دلائل کی طرف متوجہ کرنے کے لیے بھیجے جاتے ہیں، اور آسمانی کتابیں اس امتحان کو آسان کرنے کے لیے نازل کی جاتی ہیں، مگر ان سے فائدہ وہی اٹھا سکتے ہیں جن کے دل میں حق کی طلب ہو 45: چونکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کفار کے طرز عمل پر مغموم رہتے تھے، اس لیے آپ کو تسلی دی جارہی ہے کہ آپ اپنا فرض ادا کرچکے ہیں۔ ان لوگوں کے اعمال کی کوئی ذمہ داری آپ پر نہیں ہے۔